ایک عورت جس کے ساتھ شادی کے تقریباً 17 سال ہوچکے ہیں، اور اس سے اولاد بھی ہے، مگر تقریباً تین سالوں سے وہ اپنے شوہر سے ازدواجی تعلقات قائم نہیں کررہی ہے اور اس کا کوئی عذر بھی نہیں ہے، اس کا یہ عمل شرعاً کیسا ہے؟ اس سے متعلق اس کے بھائیوں سے بھی بات ہوئی ہے مگر کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔
2: شادی کے وقت لڑکی والوں کی طرف سے جہیز کے طور پر جو کچھ سامان دیا جاتا ہے شرعاً اس کا کیا حکم ہے؟ اور یہ کس کی ملکیت ہے؟
3: نیز شادی کے سترہ سال بعد طلاق کی صورت میں شوہر جہیز میں سے کیا کیا چیز لوٹانے کا پابند ہے؟ جب کہ اس دوران اس میں سے کچھ چیزیں استعمال کی وجہ سے ضائع بھی ہوئی ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ بیوی کی ذمہ شوہر کے ہر جائز اور مباح امر کی بقدر طاقت اطاعت واجب ہے، انہی امور میں سے یہ بھی ہے کہ شوہر کی جسمانی ضرورت و خواہش کی تکمیل بھی ہے، لہذا بیوی کے لیے کسی شرعی عذر جیسے ماہواری کے ایام، بیماری وغیرہ کے بغیر شوہر کو ہم بستری سے روکنا شرعاً جائز نہیں، اس میں وہ گناہ گار ہوگی، احادیث میں شوہر کے بلانے پر بیوی کے نہ جانے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:
"جب کسی مرد نےاپنی بیوی کو جماع کی طرف بلایا اور اس نے انکار کیا اور شوہر نے رات غصے میں گزاری تو فرشتے صبح تک اس بیوی پر لعنت بھیجتے ہیں۔"
لہذا صورت مسئولہ میں اگر بیوی کو کوئی شدید شرعی عذر نہ ہو تو اس کے لیے شوہر کو ہم بستری سے منع کرنا جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں شوہر اگر ایک سے زائد بیویوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ مالی جسمانی حقوق ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو دوسری جگہ نکاح کرسکتا ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
"وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح " . متفق عليه ".
(مشكاة المصابيح، باب عشرة النساء الرضاع، 2/ 237، رقم الحدیث: 3246، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
2: نکاح کے موقع پر لڑکی کو جو سامان جہیز،کپڑے،اور زیور وغیرہ اپنے والدین کی طرف سے ملے ہیں یا لڑکے والوں کی طرف سے جو عام استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے ، جوتے ، گھڑی وغیرہ ملی ہیں، یا منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز دی گئی ہے یہ سب لڑکی کی ملکیت ہے۔
3: جہیز کا جو سامان گھر کے عام استعمال میں تھا اور ضائع ہوگیا، یا بیوی کے رضامندی سے شوہر کے استعمال میں تھا اور شوہر کی کسی تعدّی اور کوتاہی کے بغیر ضائع ہوگیا تو اس کا ضمان لازم نہیں ہے، جو سامان بچ گیا ہے وہ بیوی کو واپس کرنا ضروری ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."
(کتاب النکاح، باب المہر، 3 /158، ط: سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144509101990
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن