بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے پچھلے مقام میں صحبت کرنے سے نکاح کا حکم


سوال

بیوی کے پچھلے مقام کو استعمال کرنے سے کیا نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

 بیوی سے   بدفعلی (پیچھےکی جانب میں  صحبت کرنا)  عقلاً، طبعًا اور  شرعًا انتہائی شنیع اور قبیح ترین عمل ہے،  شريعت مطهره ميں اس کی سخت حرمت اور مذّمت  بيان كی گئی ہے،  یہ شرک کے بعد بڑے گناہوں میں  سےسنگین ترین گناہ ہے،  اور اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب کا اوراُس کی رحمت سے دوری کا باعث ہے ،اس پر صدقِ دل سے توبہ واستغفار لازم ہے، تاہم اس سے  نکاح ختم نہیں ہوگا،  البتہ اگر شوہر اس عمل سے  باز نہ آئے تو بیوی  شوہر سے طلاق  لے کر یا  باہمی رضامندی سے خلع کا معاملہ کرکے علیحدگی  اختیار کرسکتی ہے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ملعون من أتى امرأته في دبرها."

(490/3، کتاب النکاح، باب في جامع النكاح، ط: دارالرسالۃ العلمیة)

ترجمہ:"اُس شخص پر (اللہ کی )لعنت ہے جو اپنی بیوی کے پاس اُس کی پیچھے کی جانب میں آئے"۔

مسندِاحمد  میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن الذي يأتي امرأته في دبرها لاينظر الله إليه."

(399/7، ابتداء مسند ابی ھریرۃ، ط: دارالحدیث القاھرۃ)

ترجمہ:"جو شخص اپنی بیوی کے پاس پیچھے کی جانب میں آتا (صحبت کرتا)ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کو رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتے۔"

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) وطؤها (يكفر مستحله) كما جزم به غير واحد، وكذا مستحل وطء الدبر عند الجمهور مجتب (وقيل لا) يكفر في المسألتين، وهو الصحيح خلاصة (وعليه المعول)؛ لأنه حرام لغيره ولما يجيء في المرتد أنه لا يفتى بتكفير مسلم كان في كفره خلاف، ولو رواية ضعيفة.

(قوله: وكذا مستحل وطء الدبر) أي دبر الحليلة، أما دبر الغلام فالظاهر عدم جريان الخلاف في التكفير وإن كان التعليل الآتي يظهر فيه ط: أي قوله؛ لأنه حرام لغيره. أقول: وسيأتي في كتاب الإكراه أن اللواطة أشد حرمة من الزنا؛ لأنها لم تبح بطريق ما لكون قبحها عقليا، ولذا لا تكون في الجنة على الصحيح. اهـ (قوله خلاصة) لم يذكر في البحر عن الخلاصة مسألة وطء الدبر (قوله فلعله يفيد التوفيق) أي بحمل القول بكفره على استحلال اللواطة بغير المذكورين والقول بعدمه عليهم (قوله؛ لأنه حرام لغيره) أي حرمته لا لعينه، بل لأمر راجع إلى شيء خارج عنه وهو الإيذاء. قال في البحر عن الخلاصة: من اعتقد الحرام حلالا أو على القلب يكفر إذا كان حراما لعينه وثبتت حرمته بدليل قطعي. أما إذا كان حراما لغيره بدليل قطعي أو حراما لعينه بإخبار الآحاد لا يكفر إذا اعتقده حلالا. اهـ ومثله في شرح العقائد النسفية."

(باب الحيض، 1/ 297،  ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510100562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں