بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے لیے عمرہ کا انتظام کرنے کے بعد اس کو مہر میں شمار کرنا


سوال

 میرا بھائی سعودی عرب میں ایک مسجد کے  امام ہیں، تو ان کے  کفیل نےکہا کہ تم اپنے بیوی اورماں کو وہاں لے کر آؤ، اور عمرہ کراؤ،سب اخراجات کفیل نے کیا،لیکن میرے بھائی کی  بھی انتظام کرنے میں  کچھ رقم لگی ، آنے سے قبل بھائی نے اپنی بیوی  کو کہا کہ میں  نے جو عمرہ کا  انتظام کیا ہے اس کو مہر میں  شمار کرنا ، اس بات پر  ان کی بیوی راضی بھی ہوگئی  اور کہا تمہارے  مہر دینے کی ضرورت نہیں،سوا ل  یہ ہے کہ:کیا اس سے مہر ادا ہو گیا یا نہیں؟کیا مہر میں زکوۃ کی طرح تملیک شرط ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب شوہر نے  عمرہ کا انتظام  کرلیا تھا تو یہ اس کی طرف سے تبرع و احسان  ہوگیاتھا  ،  اس کے بعد شوہرنے  بیوی سے  یہ کہا کہ  اس  کو مہر میں شمار کر لو، جس پر  بیوی نے  رضامندی کا اظہار کیا اور کہا کہ تمہارے مہر دینے کی ضرورت نہیں ہے ،لہذا بیوی کے  اپنی خوشی سے  حق مہر معاف کرنے  کی وجہ سے  شوہر کے ذمہ سے  مہر ساقط ہوگیا ہے ۔ 

باقی یہ ہے کہ شوہر کے ذمہ سے مہر ساقط ہونے کے لیے زکاۃ کی طرح تملیک شرط نہیں ہے ، مہر تملیک کے علاوہ بھی بہت ساری صورتوں میں  ساقط ہوجاتا ہے ۔

وفي بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع :

"ومنها: الإبراء عن كل المهر قبل الدخول وبعده إذا كان المهر دينا لأن الإبراء إسقاط، والإسقاط ممن هو من أهل الإسقاط في محل قابل للسقوط يوجب السقوط."

(كتاب النكاح،فصل بيان ما يسقط به كل المهر،2/ 295ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

"(ولا ترد) النفقة والكسوة (المعجلة) بموت أو طلاق عجلها الزوج أو أبوه ولو قائمة به يفتى.

قوله عجلها الزوج أو أبوه) لما في الولوالجية وغيرها أبو الزوج إذا دفع نفقة امرأة ابنه مائة ثم طلقها الزوج ليس للأب أن يسترد ما دفع؛ لأنه لو أعطاها الزوج والمسألة بحالها لم يكن له ذلك عند أبي يوسف وعليه الفتوى فكذا إذا أعطاها أبوه. اهـ ووجهه أنها صلة لزوجته، ولا رجوع فيما ‌يهبه ‌لزوجته."

 (‌‌‌‌كتاب النكاح,باب النفقة,3/ 596ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100227

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں