میرے بیٹے کا تیس سال کی عمر میں شادی کے دس پندرہ سال بعد انتقال ہوا،اس کی دو بیٹیاں ہیں، بڑی بیٹی جس کی عمر نو سال ہے اور وہ ہمارے ہاں ہےجبکہ دوسری بیٹی کی عمر سات سال ہے،وہ اپنی والدہ کے ساتھ ہے،اب میری بہو دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہے،مرحوم کی بیوہ چوں کہ دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہے اس لیے ہم چھوٹی بیٹی کو اپنے گھر لانا چاہتے ہیں جب کہ اس کی والدہ کہتی ہے بچی میری ساتھ ہوگی ،اس حوالے سے ہماری راہ نمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ شوہر کی وفات کے بعد والدہ اپنی بچیوں کی عمر نو سال مکمل ہونے تک اپنے پاس رکھنے کی شرعا حق دار ہوتی ہے،بشرطیکہ وہ بچی کے کسی غیر ذی رحم محرم سے شادی نہ کرے ،اگر وہ لڑکی کے کسی غیرذی رحم محرم سے شادی کرے تو والدہ کا حق پرورش ساقط ہوجائے گا اور نو سال تک پرورش کا حق نانی کا ہے، پھر پرنانی کا ہے۔ پھر دادی اور پھر پردادی کا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کی بہو کسی ایسے شخص سے شادی کرے جو بچی کے لیے ذی رحم محرم نہ ہو تو اس صورت میں بچی کی عمر نو سال ہونے تک اس کی پرورش کا حق اس کی نانی کو حاصل ہے، اگر نانی نہ ہو یا وہ اس بچی کی پرورش سے انکار کرے تو اس صورت میں بچی کی پرورش کا حق دادی کو حاصل ہوگا ،نو سال کے بعد آپ بچی کو لینے کے حق دار ہوں گے۔
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"(قوله والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع)... (قوله وبها حتى تحيض) أي: الأم والجدة أحق بالصغيرة حتى تحيض؛ لأن بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى وبه علم أنه لو قال حتى تبلغ لكان أولى وعن محمد أنها تدفع إلى الأب إذا بلغت حد الشهوة لتحقق الحاجة إلى الصيانة قال في النقاية وهو المعتبر لفساد الزمان،... وقدره أبو الليث بتسع سنين وعليه الفتوى اهـ."
(كتاب الطلاق ،باب الحضانة، ج:4، ص:184 ، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) الحاضنة (يسقط حقها بنكاح غير محرمه)"
(كتاب الطلاق ،باب الحضانة، ج:4، ص:184 ، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144603101798
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن