بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوہ کواس کی بیٹی کا حقِ پرورش دینے کے لیے، مہر معاف کرنے کی شرط لگانا


سوال

1-ایک شخص کا انتقال ہوا، ورثاء میں دو بیوہ، والدہ، چار بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑیں، دوسری بیوی کا مہر جو  چار تولہ سونا تھا،  شوہر نے اپنی زندگی میں ادا نہیں کیا تھا، اس دوسری بیوہ سے ایک نابالغ بیٹی ہے، مرحوم کے گھر والوں کا دوسری بیوہ سے یہ مطالبہ ہے کہ یہ بچی ہم آپ کو دیں گے، لیکن آپ اپنا مہر جو مرحوم کے ذمہ ہے، وہ معاف کر دیں، اگر معاف نہیں کروگی، تو پھر بچی ہماری ہوگی، اور ہم ہی اس کو لیں گے۔
مرحوم کی دوسری بیوہ کی جو ایک نابالغ بچی ہے، اس کی پرورش کا حق کس کو ہے؟ مرحوم کے بھائیوں، یا بیوہ کے بھائیوں، یا خود بیوہ کو، یا مرحوم کی ماں کو ؟ اگر بچی کی پرورش کا حق مرحوم کے بھائیوں کو ہے، تو اس صورت میں  چار تولہ سونا جو مذکورہ بیوہ کا مہر ہے، کیا اس کے چھوڑنے کے عوض بچی دینا، کیا ایسا کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟

2۔ مرحوم کی وراثت کی تقسیم  کا طریقہ کیا ہے؟

جواب

1۔ واضح رہے کہ مہر بیوی کا حق ہے، اس کی ادائیگی شوہر کے ذمہ لازم ہوتی ہے، پس اگر شوہر اپنی زندگی میں مہر ادا نہ کرسکا، تو اس کی وفات کے بعد ترکہ تقسیم کرنے سے قبل مہر کی ادائیگی شرعاً ضروری ہوتی ہے، الا یہ کہ مہر کی حق دار بغیر کسی جبر و اکراہ کے برضا و خوشی اپنا مہر معاف کردے، تاہم اسے مہر معاف کرنے پر مجبور کرنےکا حق شرعاً کسی کو نہیں ہوتا، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے گھر والوں کا اس کی مذکورہ بیوہ سے یہ مطالبہ کرنا کہ "اگر آپ اپنا حقِ مہر (چار تولہ سونا، جو مرحوم نے اپنی زندگی میں ادا نہیں کیا تھا)معاف کر تی ہے، تو مذکورہ نابالغ بچی آپ کو دیں گے، ورنہ نہیں"شرعاً درست نہیں ہے۔

نیز یتیم بچی کی عمر نوسال پورى ہونے تک شرعاً پرورش کرنے کی حقدار اس کی والدہ ہی  ہے، بچی کی عمر نو سال پوری ہونےکے بعد اس کی دیکھ بھال و تربیت کی ذمہ داری بچی کے دادا، ان کے بعد  بچی کے بھائی کی ہوگی، البتہ مذکورہ بچی کے ذریعہ مذکورہ خاتون کو مہر چھوڑنے پر مجبور کرناجائز نہیں ہوگا، پس اگر مجبوراً مذکورہ خاتون اپنا مہر چھوڑ بھی دے،  تو مذکورہ چار تولہ سونا باقی افراد کے لیے لینا از روئے حدیث جائز نہیں ہوگا، بلکہ ہر حال میں بیوہ کو ادا کرنا لازم ہوگا ورنہ آخرت میں سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

2۔ مرحوم کی میراث تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، مرحوم کے ذمہ  دوسری بیوی کا واجب الأداء مہر، اور  اگر قرض ہو، تو اسے ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو،تو اسے باقی کل ترکہ کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ و غیرِ منقولہ کو 240 حصوں میں تقسیم کرکے15 حصے ہر ایک بیوہ کو، 40 حصے والدہ کو، 34 حصے ہر ایک بیٹے کو اور 17 حصے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

مرحوم بیٹا:240/24

بیوہبیوہوالدہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
3417
151540343434341717

فی صد کے اعتبار سے 6.25 فی صد ہر ایک بیوہ کو،16.66 فی صد والدہ کو،14.16 فی صد ہر ایک بیٹے کو اور 7.08 فی صد ہر ایک بیٹی کو ملے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويتأكد(عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما)."

(کتاب النکاح،باب المهر،102/3 سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"والمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، كذا في البدائع."

(کتاب النکاح، الباب السابع في المهر،الفصل الثاني فيما يتأكد به المهر والمتعة،304/1، ط: رشيدية)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه» . رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى."

 ’’اور حضرت ابوحرہ رقاشی (تابعی) اپنے چچا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا خبردار کسی پر ظلم نہ کرنا ! جان لو! کسی بھی دوسرے شخص کا مال لینا یا استعمال کرنا) اس کی مرضی و خوشی کے بغیر حلال نہیں۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں اور دار قطنی نے مجتبی میں نقل کیا ہے۔“

(كتاب البيوع، باب الغصب والعاريۃ، ج: 2، ص: 889، ط: المكتب الاسلامی)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وبها حتى تحيض) أي: الأم والجدة أحق بالصغيرة حتى تحيض؛ لأن بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة آداب النساء والمرأة على ذلك أقدر وبعد البلوغ تحتاج إلى التحصين والحفظ والأب فيه أقوى وأهدى وبه علم أنه لو قال حتى تبلغ لكان أولى وعن محمد أنها تدفع إلى الأب إذا بلغت حد الشهوة لتحقق الحاجة إلى الصيانة قال في النقاية وهو المعتبر لفساد الزمان، وفي نفقات الخصاف وعن أبي يوسف مثله، وفي التبيين وبه يفتى في زماننا لكثرة الفساد، وفي الخلاصة وغياث المفتي والاعتماد على هذه الروايات لفساد الزمان.فالحاصل أن الفتوى على خلاف ظاهر الرواية فقد صرح في التجنيس بأن ظاهر الرواية أنها أحق بها حتى تحيض واختلف في حد الشهوة، وفي الولوالجية وليس لها حد مقدر؛ لأنه يختلف باختلاف حال المرأة، وفي التبيين وغيره وبنت إحدى عشرة سنة مشتهاة في قولهم جميعا وقدره أبو الليث بتسع سنين وعليه الفتوى اهـ."

(کتاب الطلاق، باب الحضانة،ج 4 / ص 184، ط: دار الكتب الإسلامي)

الاختیار لتعلیل المختار میں ہے:

"يبدأ من تركة الميت بتجهيزه ودفنه على قدرها ثم تقضى ديونه، ثم تنفذ وصاياه من ثلث ماله، ثم يقسم الباقي بين ورثته."

(کتاب الفرائض،صفحة:85، ط: مطبعة الحلبی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100703

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں