بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، چار بیٹے، دو بیٹیوں میں تقسیمِ میراث


سوال

سسر کا انتقال ہوا، ورثاء میں بیوہ، چار بیٹے، دو بیٹیاں ہیں، سسر نے ترکہ میں ایک  مکان چھوڑا ہے، اس کی تقسیمِ میراث کس طرح ہو گی؟ سسر نے ایک بچی پالی تھی ، جو اس کی اپنی بیٹی نہیں تھی،کیا اس کا بھی ترکے میں حصہ ہو گا یا نہیں؟ مکان کل 53  لاکھ کا بیچا ہے، جس میں سے 13 لاکھ مکان کے واجبات میں ادا ہو گئے ،  اب  40  لاکھ  باقی ہیں، ان کی تقسیم کیسے ہو گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم سسر کے حقوقِ متقدمہ یعنی کفن، دفن کا خرچہ ( اگر کسی نے بطورِ قرض کیا ہو تو وہ ) نکالنے کے بعد،اگر مرحوم کے ذمے کوئی قرض ہو تو وہ ادا کرنے کے بعد، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ایک تہائی ترکہ میں اسے نافذ کرنے کے بعد ، باقی کل ترکہ منقولہ و غیر منقولہ کو 80   حصوں میں تقسیم کر کے10   حصے مرحوم کی بیوہ کو،14   حصے کر کے    ہر ایک بیٹے کو اور 7،7 حصے کر کے   ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت : 8 / 80 

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
101414141477

یعنی 40 لاکھ روپے میں سے 500000 روپے بیوہ کو ، 700000 روپے ہر ایک بیٹے کو اور 350000 روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

ملحوظ رہے کہ لے پالک بیٹی کے بارے میں اگر مرحوم  سسر نے کوئی وصیت نہیں کی تو  چوں کہ لے پالک بیٹی شرعی وارث نہیں ہوتی ، اس لیے اسے مرحوم کی میراث سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ ہاں اگر موجودہ ورثاء اپنی خوشی سے اپنے اپنے حصے میں چاہیں تو اسے حسب توفیق دے سکتے ہیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101455

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں