بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوہ تین بیٹے چھ بیٹیوں میں میراث کی تقسیم


سوال

میرےدادا کاانتقال ہواہے ،ورثاء میں بیوہ، تین بیٹے ،چھ بیٹیاں ہیں، جائیداد میں صرف نقد 128470روپے ہیں ،اب اس کی تقسیم کس طرح ہوگی ؟اور اگراس رقم کو ہم داداکی قبربنانے میں لگادیں  یاان کے ایصال ثواب کے لیے صدقہ خیرات میں لگادیں تو کیااس طرح جائز ہے ؟

جواب

صورت ِ مسئولہ میں  اگر  قبر بنانے سے مراد تجہیز وتکفین اور تدفین کا خرچہ ہے تو یہ اخراجات  مرحوم کے ترکہ میں سے ورثا ءکے حصے نکالنے سے پہلےادا کئےجائیں گے  اور اگر اس سے مراد شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے مرحوم کی قبر کی مرمت کرنا ہے تو    تمام ورثاء بشرطیکہ سب عاقل  بالغ ہوں اپنی خوشی ورضامندی سے قبر کی مرمت کے اخراجات مذکورہ رقم سےادا کرسکتے ہیں ۔اسی طرح تمام ورثاء جبکہ سب عاقل بالغ ہوں مذکورہ رقم اپنی خوشی سے یا ہر وارث اپنا حصہ مرحوم کےایصال ثواب کے لیے صدقہ کے طور پر  دینا چاہے تو  دے سکتاہے ۔نیز واضح رہے کہ قبر کو پختہ بنانا جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر ورثاء مذکورہ رقم کو تقسیم کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد ،اگر مرحو م کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل مال سے ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسی بقیہ مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 96 حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی بیوہ  کو 12 حصے ،ہر ایک بیٹے کو 14 حصے ،ہر ایک بیٹی کو 7حصے ملیں گے ۔

صورت ِ تقسیم یہ ہے :

میت۔۔۔96/8

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
12141414777777

128470 روپے میں سے  16058.75روپے بیوہ کو،18735.20روپے ہر بیٹے کو،9367.60 روپے ہر بیٹی کو ملے گا ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"التركة تتعلق بها حقوق أربعة: جهاز الميت ودفنه والدين والوصية والميراث. فيبدأ أولا بجهازه وكفنه وما يحتاج إليه في دفنه بالمعروف، كذا في المحيط."

(كتاب الفرائض،ج:6،ص:447،دارالفكر)

البحرالرائق شرح کنزالدقائق میں ہے:

"(قوله ولا يجصص) لحديث جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص ‌القبر وأن يقعد عليه وأن يبنى عليه وأن يكتب عليه» وأن يوطأ وفي المجتبى ويكره أن يطأ ‌القبر أو يجلس أو ينام عليه أو يقضي عليه حاجة من بول أو غائط أو يصلى عليه أو إليه ثم المشي عليه يكره."

(کتاب الجنائز، الصلاۃ علی المیت فی المسجد،ج:2،ص:209،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے :

"(قوله: و لايجصص) أي لايطلى بالجصّ بالفتح و يكسر قاموس (قوله: و لايرفع عليه بناء) أي يحرم لو للزينة، و يكره لو للإحكام بعد الدفن."

(مطلب في دفن الميت:ج:2،ص:273،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102936

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں