میرے شوہر کا آج سے تقریباً پانچ سال قبل انتقال ہوچکا ہے، مرحوم کے پسماندگان میں بیوہ، والدہ، ایک بیٹا ور اس کے علاوہ مرحوم کے دو بھائی اور چھ بہنیں موجود ہیں۔
مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے مرحوم کے شرعی ورثاء میں بیوہ سمیت ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟ نیز مرحوم کے بھائی اور بہنیں وراثت کے حق دار ہوں گے یا نہیں؟
مرحوم شوہر نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا ہے، تو اس کی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، مرحوم پر اگر کوئی قرضہ ہو تو کل مال سے اس کو ادا کرنےکے بعد مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو، تو بقیہ مال کے ایک تہائی سے اس کو پورا کرنے کے بعد، جو مال بچ جائے، اس کو 24 حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ کو 3 حصے، والدہ کو 4 حصے اور بیٹے کو 17 حصے ملیں گے اور بیٹے کے ہوتے ہوئے بھائیوں اور بہنوں کا میراث میں حصہ نہیں ہوتا۔
صورتِ تقسیم یہ ہے:
شوہر: 24
بیوہ | والدہ | بیٹا | دونوں بھائی | چھہ بہنیں |
3 | 4 | 17 | م | م |
یعنی فی صد کے اعتبار سے بیوہ کو12.5 فی صد، والدہ کو 16.666 فی صد اور بیٹے کو 70.833 فی صد ملے گا۔
مرحوم نے جب مہر ادا نہیں کیا تھا، تو وہ مہر مرحوم پر قرضہ ہے، لہٰذا ترکہ کی تقسیم سے قبل اس کو کل مال سے منہا کیا جائے گا اور وہ بیوہ کو دیا جائے گا، اس کے بعد ترکہ کی تقسیم کی جائے گی۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601102427
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن