بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، والدہ اور بیٹے میں میراث کی تقسیم


سوال

میرے شوہر کا آج سے تقریباً پانچ سال قبل انتقال ہوچکا ہے، مرحوم کے پسماندگان میں بیوہ، والدہ، ایک بیٹا ور اس کے علاوہ مرحوم کے دو بھائی اور چھ بہنیں موجود ہیں۔

مذکورہ بالا تفصیل کی رو سے مرحوم کے شرعی ورثاء میں بیوہ سمیت ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟ نیز مرحوم کے بھائی اور بہنیں وراثت کے حق دار ہوں گے یا نہیں؟

مرحوم شوہر نے اپنی بیوی کا مہر ادا نہیں کیا ہے، تو اس کی ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد، مرحوم پر اگر کوئی قرضہ ہو تو کل مال سے اس کو ادا کرنےکے بعد  مرحوم نے اگر کوئی جائز وصیت کی ہو، تو بقیہ مال کے  ایک تہائی سے اس کو پورا کرنے کے بعد، جو مال بچ جائے، اس کو 24 حصوں میں تقسیم کر کے بیوہ کو 3 حصے، والدہ کو 4 حصے اور بیٹے کو 17 حصے ملیں گے اور بیٹے  کے ہوتے ہوئے بھائیوں اور بہنوں  کا میراث میں حصہ نہیں ہوتا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:
شوہر: 24

بیوہوالدہبیٹادونوں بھائیچھہ بہنیں
3417مم

یعنی فی صد کے اعتبار سے بیوہ کو12.5 فی صد، والدہ کو 16.666 فی صد اور بیٹے کو 70.833 فی صد ملے گا۔

مرحوم نے جب مہر ادا نہیں کیا تھا، تو وہ مہر مرحوم پر قرضہ ہے، لہٰذا ترکہ کی تقسیم سے قبل اس کو کل مال سے منہا کیا جائے گا اور وہ بیوہ کو دیا جائے گا، اس کے بعد ترکہ کی تقسیم کی جائے گی۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں