میرے والد کا انتقال ہوگیاہے ، ورثاء میں بیوہ، 3بیٹے اور 4بیٹیاں ہیں ، والدصاحب کی 2عددجائیدادہے، جس میں ایک گھر اور ایک سکول ہے، یہ دونوں جائیدادیں والدصاحب نے بنائی تھیں اور اس کی تعمیرمیں بیٹوں اور بیٹیوں نےوالدصاحب کی مددکی تھی، اس وقت جس نے بھی والد صاحب کو رقم دی تھی سب کی نیت والدصاحب کے ساتھ تعاون اور مددکی ہی تھی، اب والدصاحب کے ترکہ کی تقسیم کیسے ہوگی؟ جن بیٹوں اور بیٹیوں نے والدصاحب کےساتھ تعاون اور مددکی نیت سے رقم دی تھی اس کا کیاہوگا؟
صورت مسئولہ میں اگر واقعۃ بیٹوں اور بیٹیوں نے تعمیر کی مد میں والد کو رقم دیتے وقت کوئی صراحت نہیں کی تھی تو یہ رقم ان کی طرف سے بطور تبرع تھی ،اب انہیں اس کے واپس لینے کا حق نہیں ہے،لہذا یہ گھر اور سکول اور اس کی تعمیر والد صاحب کی ہی ملکیت تھی اور والد کے انتقال کے بعد یہ مکان اور تعمیر تمام ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہوگی ، مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ، اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو اسے ادا کرنے کے بعد باقی ترکہ میں سے اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے ایک تہائی مال میں سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل متروکہ جائیداد (منقولہ و غیر منقولہ ) کو 80 حصوں میں تقسیم کر کے 10 حصے بیوہ کو، 14 حصے ہر ایک بیٹے کو اور 7 حصے ہرایک بیٹی کو ملیں گے۔ صورت تقسیم یہ ہے :
والد:8/ 80
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | ||||||
10 | 14 | 14 | 14 | 7 | 7 | 7 | 7 |
یعنی فیصدکے اعتبارسے 12.50فیصدمرحوم کی بیوہ کو، 17.50فیصد ہر ایک بیٹے کو اور 8.75فیصدہرایک بیٹی کو ملے گا۔
العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں ہے:
"المتبرع لايرجع بما تبرع به على غيره، كما لو قضى دين غيره بغير أمره."
(کتاب المداینات ج:2، ص:226 ، ط:دار المعرفة)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144607102039
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن