بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، دو بیٹے اور ایک بیٹی میں میراث کی تقسیم


سوال

میرے والد کا انتقال ہوچکا ہے،ان کے استعمال میں رہنے والی اشیاء گھر ،گاڑی،فرنیچر ،موبائل،کپڑےجوتے،کیا وراثت میں شامل ہیں؟ اگر ہیں تو ان کو ورثاء میں کیسے تقسیم کیا جائے گا؟ ان کے ورثاء میں ایک  بیوہ ،دو  بیٹےاور بیٹی شامل ہیں،ساتھ ہی مرحوم کا ایک کاروبار بھی تھا جو ان کے چاروں ورثاء کے نام پر منتقل ہوچکا ہے،اس کاروبار کی آمدنی ان چاروں میں کیسے تقسیم ہوگی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والدمرحوم کی ملکیت میں ان کی وفات تک جتنی اشیاءمنقولہ و غیر منقولہ شامل تھیں،وفات کے بعد وہ سب مرحوم کے ترکہ میں  شامل ہوں گی،اور ان سب کو حصص شرعیہ کے تناسب سےمرحوم کے تمام ورثاء میں تقسیم کرنا ضروری ہوگا، جس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے  حقوقِ  متقدمہ  یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد،مرحوم کے ذمہ   اگر کوئی قرض ہو، تو اسے  ترکہ  سے ادا کرنے کے بعد ،اگر مرحوم نے کوئی  جائز وصیت کی ہو ،تو اسے  بقیہ ترکہ کے ایک تہائی  سے پورا کرنےبعد کے  بقیہ کل ترکہ  منقولہ (گاڑی، فرنیچر، موبائل،کپڑےجوتے) وغیر منقولہ (گھر،پلاٹ ) کو 40 حصوں میں تقسیم کرکے5حصہ جس میں سے مرحوم کی بیوہ کو،14حصے مرحوم کے ہر بیٹے کو،اور7حصے مرحوم کی اکلوتی بیٹی کو ملیں گے۔

صورت تقسیم یہ ہے:

میت40/8

بیوہبیٹابیٹابیٹی
17
514147

یعنی فیصد کے اعتبار سے میں سے  12.5 فیصدمرحوم کی بیوہ کو،35 فیصدمرحوم کے ہر ایک بیٹے کو17.5 فیصد اکلوتی بیٹی کوملے گا۔نیزکاروبارجب تک تقسیم نہیں کیا جائے،اس وقت تک کاروبار کی آمدنی بھی تقسیم بالا کے تناسب سے چاروں ورثاءمیں تقسیم ہوگی۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں