بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو طلاق نامہ موصول نہ ہونے کی صورت میں طلاق کا حکم، بیوی کا مہر اور گزشتہ نفقہ کاحکم


سوال

میری شادی اکتوبر 2020 ء کو اپنی پھوپھی کی بیٹی سے ہوئی تھی، کچھ عرصہ بعد ذاتی اختلافات کی وجہ سے میں نے اس کو میکے بھیج دیا، اس کے بعد میں نے ایک آگاہی نوٹس ان کو بھیجا کہ اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہ رہی ہیں، تو مجھ سے خود رابطہ کرلیں، لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں ملا، اس کے کچھ عرصہ  بعد (7جون 2021 کو)  میں نے طلاق نامہ بنوایا اور بیوی کو بھیج دیا، جس میں تین طلاقوں  کا ذکر تھا اور اس پر میں نے دستخط بھی کیے تھے، لیکن وہ طلاق نامہ ان کو موصول نہیں ہوا اور میرے پاس واپس آیا(طلاق نامہ سوال نامہ کے ساتھ منسلک ہے) گزشتہ ہفتہ کورٹ سے نوٹس آیا جس میں خلع اور نان نفقہ کےلیے مبلغ 15000 روپے کا تقاضہ کررہی تھی، میں نے حق مہر کی رقم ابھی تک ادا نہیں کی ہے، نیز میرا ان سے کوئی اولاد بھی نہیں ہے اور نہ اولاد  کی امید ہے۔

اب دریافت یہ کرنا ہےکہ:

1:مذکورہ طلاق نامہ کی رو سے طلاق ہوئی ہے یا نہیں، اگر ہوئی ہے تو کتنی؟

2:حق مہر اد ا کرنا میرے ذمہ لازم ہے یا نہیں؟

3: بیوی کا نان نفقہ میرے ذمہ ابھی لازم ہے یا نہیں؟

جواب

1:واضح رہے کہ طلاق واقع ہونے کےلیے طلاق نامہ کا بیوی کے پاس پہنچنا ضروری نہیں، صرف طلاق نامہ بنوانے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل نے جس وقت منسلکہ  طلاق نامہ بنوایا تھا ( جس میں تین طلاقوں کا ذکر ہے) تو  اسی وقت سائل کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی تھی، سائل کا نکاح ختم ہوچکا تھا اورجس دن سائل نے طلاق نامہ بنوایا تھا  اسی دن سے اس کی عدت شروع ہوگئی تھی، اور  چوں کہ سائل کی مطلقہ بیوی حاملہ نہیں ہے، اس لیے اس عدت  کی مدت ختم ہوچکی ہے اور وہ دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:             

"ولو قال للكاتب: ‌اكتب ‌طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب، ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة أو قال للرجل: ابعث به إليها، أو قال له: اكتب نسخة وابعث بها إليها".

وفیہ ایضاً:

"وأراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة".

  (کتاب الطلاق، مطلب فی الطلاق بالکتابة، ج:3، ص:246، ط:سعید)

2:جتنا مہر مؤجل و معجل بوقتِ نکاح مقرر کیاگیا تھا اس کا ادا کرنا سائل کے ذمہ ضروری ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"والمهر یتأکد بأحد معان ثلاثة الدخول، والخلوۃ الصحیحة، وموت أحد الزوجین سواء کان مسمیٰ، أو مهر المثل حتی لا یسقط شیئ منه بعد ذلک إلا بالإبراء من صاحب الحق".

(کتاب النکاح، فصل واما بیان مایتأکد به المهر، ج:2، ص:291، ط:سعيد)

 3: سائل کی بیوی کو چوں کہ تین طلاقیں ہوگئی ہیں، اور عدت بھی ختم ہوگئی ہے، اس لیے سائل کے ذمہ اب کوئی نان ونفقہ لازم نہیں ہے، اور بیوی گزشتہ نفقہ کا بھی مطالبہ نہیں کرسکتی۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"(قال:) - رضي الله عنه - اعلم بأن نفقة الغير تجب بأسباب منها الزوجية، ومنها الملك، ومنها النسب".

(باب النفقة، ج:5، ص:180، ط:دار المعرفة)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله ولا تجب نفقة مضت إلا بالقضاء أو الرضا) ؛ لأن النفقة صلة وليست بعوض عندنا فلم يستحكم الوجوب فيها إلا بالقضاء كالهبة لا توجب الملك فيها إلا بمؤكد وهو القبض والصلح بمنزلة القضاء؛ لأن ولايته على نفسه أقوى من ولاية القاضي ۔۔۔ والمراد بعدم وجوبها عدم كونها دينا عليه فلا تكون دينا عليه يطالب به ويحبس عليه".

(باب النفقة، اسباب وجوب النفقة، ج:4، ص: 203، ط:دار الكتاب)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144305100794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں