بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

شوہر نے بیوی کو عدالت سے خلع لینے کی اجازت دی، لیکن خلع نامہ اور مجلس قاضی میں راضی نہ ہونے کا حکم


سوال

میرے شوہر اداکار ہے، ڈراموں وغیرہ میں کام کرتاہے، ماڈلنگ بھی کرتاہے،حج وعمرہ ٹریول ایجنسی کا کام بھی کرتاہے ،لڑکیوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھناہے،نشے وغیرہ بھی کرتاہے،اور مجھے بھی نشے میں مبتلاکردیا تھا،  لیکن الحمد اللہ اب میں صحیح ہوں  ،میں نے اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے علیحدگی کا مطالبہ کیا تو اس نے کہا کہعدالت سے جاکر خلع لے لو ،میں تمہیں نہیں دوں گا،پھر میں نے عدالت میں درخواست دائرکی اور ایک سال تک کیس چلتارہا ،اس کے بعد عدالت نے خلع کی ڈگری جاری کردی ہے ،اب پوچھنا یہ ہے کہ یہ خلع معتبر ہے یا نہیں ؟میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ، خلع کے کاغذات میں ان کے سائن نہیں ہے ،البتہ  شوہر نےخلع کی  ڈگری جاری کرنے کی مجلس میں   ویڈیوکال کے ذریعے شرکت کی  اور جج  کا فیصلہ  انہوں نے سنا  اور سن کر وہ ہنس رہے تھے ،اس فیصلے کا انکار نہیں کیا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ خلع  مالی معاملات  کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین (میاں بیوی) کی رضامندی  ضروری ہوتی  ہے،  لہذا خلع کے لیے شوہر کی رضامندی اور اجازت ضروری ہے،اور جس خلع میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی شامل ہو توایسا خلع شرعاً معتبر ہوتاہے، لہذا  صورتِ مسئولہ میں شوہر کا  بیوی کو یہ کہنا  کہ”   عدالت سے جاکر خلع لے لو ،میں تمہیں نہیں دوں گا  “ تو اگر واقعۃ سائلہ کے شوہر نے یہ الفاظ اداکئے تھے تو یہ الفاظ  شوہر کی طرف سے کورٹ سے خلع لینے کی اجازت اور رضامندی پر مشتمل ہیں ، لہذا  س کے بعد سائلہ  نے متعلقہ کورٹ سے اپنے حق میں خلع کی جو ڈگری حاصل کی ہے تو اس سے خلع شرعاً معتبر ہوگیاہے ، اگرچہ بعد میں خلع نامہ پر کوئی  دستخط نہیں کئے تھے نکاح ختم ہوچکاہے، لہذا سائلہ کی عدت خلع  لینے کے دن سے شروع ہوگی اور عدت(پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ اوراگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک ) گزارنے کے بعد  سائلہ دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

القرآن الکریم میں ہے:

"وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ(سورة البقرة، الآیة:229)

ترجمہ:”  اور تمہارے لئے یہ بات حلال نہیں کہ (چھوڑنے کےوقت)کچھ بھی لو (گو) اس میں سے (سہی)جو تم نے ان کو (مہرمیں )دیاتھا،مگر یہ کہ میاں بیوی دونوں کو احتمال ہو کہ اللہ تعالی کے ضابطوں کو قائم نہ کرسکیں گے،سو اگر تم لوگوں کو یہ احتمال ہو کہ دونوں ضوابط خداوندی کو قائم نہ کرسکیں گے تو کوئی گناہ نہ ہوگااس (مال کے لینے دینے ) میں جس کو دے کر عورت اپنی جان چھڑالے “۔

الفتاوی الھندیهمیں ہے:

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق، الباب الثامن فی الخلع، 1/ 488، ط: دار الفکر)

 ردالمحتار علی الدرالمختار میں ہے:              

"وشرعا كما في البحر (إزالة ملك النكاح) خرج به الخلع في النكاح الفاسد وبعد البينونة والردة فإنه لغو كما في الفصول (المتوقفة على قبولها) خرج ما لو قال: خلعتك - ناويا الطلاق - فإنه يقع بائنا غير مسقط للحقوق لعدم توقفه عليه.

(قوله: أو اختلعي إلخ) إذا قال لها اخلعي نفسك فهو على أربعة أوجه: إما أن يقول بكذا فخلعت يصح وإن لم يقل الزوج بعده: أجزت، أو قبلت على المختار؛ وإما أن يقول بمال ولم يقدره، أو بما شئت فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده، وإما أن يقول اخلعي ولم يزد عليه فخلعت، فعند أبي يوسف لم يكن خلعا. وعن محمد تطلق بلا بدل، وبه أخذ كثير من المشايخ."

(باب الخلع، 3/ 440، ط: دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101256

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں