شوہر اور بیوی میں کسی بات کو لے کر جھگڑا ہوگیا، آپس میں بحث ہوتے ہوتے بیوی کو ضد چڑھ گئی، بیوی بولی کہ" مجھے تم طلاق دے دو،" وہ پیچھے ہی پڑ گئی اور مان ہی نہیں رہی تھی، شوہر کو پکڑ رکھا تھایا تو بولو( تین طلاق) ،بولو گے تو چھوڑوں گی ،بولو! نہیں تو گلا کاٹ دوں گی، جب شوہر پریشان ہو گیا، رات کے دو بج گئے تو وہ بولا:" اچھا تو پھر ٹھیک ہے ،میں بولتا ہوں طلاق طلاق طلاق، جا میں نے تجھے طلاق دی۔" تو کیا طلاق واقع ہوچکی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شخص نے اپنی بیوی کے مطالبہ کی وجہ سے زبانی طور پر جوالفاظ بولے کہ" اچھا تو پھر ٹھیک ہے ،میں بولتا ہوں طلاق طلاق طلاق، جا میں نے تجھے طلاق دی۔"اس سے اس کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں،دونوں کا نکاح ختم ہوگیا ہے ،اور بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب بیوی سے عدت کے دوران رجوع کرنا یا عدت کے بعد دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے،نیزعورت طلاق کے بعد سے اپنی عدت(پوری تین ماہواریاں اگر حاملہ نہ ہو،اگر حاملہ ہو تو وضع حمل تک )گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔
سورۃ البقرۃ میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
" فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعۡدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهُۥۗ." (البقرة، آية:230)
ترجمہ:"پھر اگر کوئی(تیسری)طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک وہ اس کے سوا ایک خاوند کے ساتھ(عدت کےبعد)نکاح کرلے۔"(ترجمہ بیان القرآن)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ولو تقديرا بدائع، ليدخل السكران (ولو عبدا أو مكرها) فإن طلاقه صحيح .
وفي الرد:(قوله فإن طلاقه صحيح) أي طلاق المكره."
(كتاب الطلاق،باب ركن الطلاق، ج:3، ص:235، ط:سعيد)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضاً حتى لايجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - ﴿فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَه مِنْ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجاً غَيْرَه﴾ ،وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
( کتاب الطلاق،فصل فی حكم الطلاق البائن،3/ 187،ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."
(کتاب الطلاق، الباب السادس فى الرجعة، فصل فيماتحل به المطلقة و مايتصل به، 1/ 473، ط: مكتبه رشيدیه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144406101716
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن