بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو چھوڑ کر شوہر کا چار مہینے کی جماعت پر جانا


سوال

میرا خاوند چار مہینے کی جماعت میں چلا جاتا ہے، تو میں کیا کروں؟

جواب

 تبلیغی جماعت میں جانا بہت اچھی بات اور نیکی کا کام ہے، لیکن بیوی، بچوں اور دیگر اہلِ حقوق کے حقوق کی ادائیگی بھی شریعت کی رُو سے انتہائی ضروری ہے، نیز تبلیغی جماعت کے نظم و نسق اور تبلیغی جماعت کےبزرگ حضرات اور اکابرین کی ہدایات بھی یہی ہیں کہ تبلیغی سفر میں جانے سے پہلے اپنے گھر والوں کے تمام حقوق کا انتظام کر کے اور گھر والوں کو راضی کر کے ہی آدمی کو تبلیغی سفر میں جانا چاہیے۔لہذا اگر آپ کے خاوند نے چار مہینے پر جانے سے پہلے گھر  بار، نان و نفقہ اور دیگر اخراجات کا انتظام کردیا ہے، اور چار مہینے کے سفر پر جانے سے آپ کو تکلیف نہیں ہے  اور نہ ہی کسی قسم کے فتنہ کا اندیشہ ہے، تو اِس صورت میں آپ کو اعتراض کا حق نہیں ہوگا ۔تاہم اگر اُن کے چار مہینے کی جماعت پر جانے سے آپ کو مشقت و تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہو، یا کسی قسم کے فتنہ کا اندیشہ ہو، تو آپ کے شوہر کے لیے اِس صورت میں چار مہینے کی جماعت پر جانا درست نہیں ہوگا، بلکہ  انہیں چاہیے کہ وہ مقامی طور پر دعوت و تبلیغ کی محنت میں شامل ہوجایا کریں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وقال محمد - رحمه الله تعالى - في السير الكبير إذا أراد الرجل أن يسافر إلى غير الجهاد لتجارة أو حج أو عمرة وكره ذلك أبواه فإن كان يخاف الضيعة عليهما بأن كانا معسرين ونفقتهما عليه وماله لا يفي بالزاد والراحلة ونفقتهما فإنه لا يخرج بغير إذنهما سواء كان سفرا يخاف على الولد الهلاك فيه كركوب السفينة في البحر أو دخول البادية ماشيا في البرد أو الحر الشديدين أو لا يخاف على الولد الهلاك فيه وإن كان لا يخاف الضيعة عليهما بأن كانا موسرين ولم تكن نفقتهما عليه إن كان سفرا لا يخاف على الولد الهلاك فيه كان له أن يخرج بغير إذنهما وإن كان سفرا يخاف على الولد الهلاك فيه لا يخرج إلا بإذنهما كذا في الذخيرة.

 وكذا الجواب فيما إذا خرج للتفقه إلى بلدة أخرى إن كان لا يخاف عليه الهلاك بسبب هذا الخروج كان بمنزلة السفر للتجارة وإن كان يخاف عليه الهلاك كان بمنزلة الجهاد."

(كتاب الكراهية، الباب السادس والعشرون، ج:5، ص:365، ط:دارالفكر)

فقط والله تعالى اعلم بالصواب


فتوی نمبر : 144610100230

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں