بندہ نے اپنی بیوی کو راہ راست پر لانے لیے تین دفعہ یہ الفاظ کسی سے لکھوا کہ ایک کاغذ پر کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، جب کہ اللہ گواہ ہے کہ نیت طلاق دینے کی نہیں تھی، صرف دھمکانے کے لیے کیا تھا اور وہ الفاظ جو کا غذ پر لکھے تھے وہ میں نے گھر میں رکھے کہ بیوی دیکھے گی تو فون کرے گی، میں کہوں گا کہ یاسیدھی ہوجاؤ، ورنہ ہمیشہ کے لیے تمہیں میں الگ کردوں گا، وہ کاغذ ابھی تک اس کو ملا نہیں، وہ بات اس کو کسی اور نے بتادی ہے، جب کہ نیت میری صرف دھمکانے کی تھی، طلاق دینے کی نہیں تھی۔
پوچھنا یہ ہے کہ کیا طلاق واقع ہوگئی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں جب شوہر نے یہ الفاظ " میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" تین دفعہ کسی دوسرے شخص سے کاغذ پر لکھوائے تو لکھوانے سے ہی اس کی بیوی پر (جب کہ نکاح کے بعد رخصتی ہوگئی ہو)تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ، دونوں کا نکاح ختم ہوگیا ہےاور وہ اپنے شوہر پرحرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب رجوع کرنے یا دوبارہ نکاح کرنے کی گنجائش نہیں، عورت عدت ( تین ماہواری اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کےلیے آزاد ہوگی۔
قرآن کریم میں ہے:
"فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ." ﴿البقرة: ٢٣٠﴾
ترجمه:" پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دیدے عورت کو تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے پھر اگر یہ اس کو طلاق دیدے تو ان دونوں پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بدستور پھر مل جاویں بشرطیکہ دونوں غالب گمان رکھتے ہوں کہ (آئندہ) خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے اور یہ خداوندی ضابطے ہیں حق تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو دانشمند ہیں"۔(بیان القرآن)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"وقوله تعالى: فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره أي أنه إذا طلق الرجل امرأته طلقة ثالثة بعد ما أرسل عليها الطلاق مرتين، فإنها تحرم عليه حتى تنكح زوجا غيره، أي حتى يطأها زوج آخر في نكاح صحيح، فلو وطئها واطئ في غير نكاح ولو في ملك اليمين، لم تحل للأول، لأنه ليس بزوج."
(تفسير سورة البقرة،الآية:230، ج:1، ص:469، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
صحیح مسلم میں ہے:
"(1433) حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا علي بن مسهر ، عن عبيد الله بن عمر ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة قالت: « طلق رجل امرأته ثلاثا، فتزوجها رجل، ثم طلقها قبل أن يدخل بها، فأراد زوجها الأول أن يتزوجها، فسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك؟ فقال: لا حتى يذوق الآخر من عسيلتها ما ذاق الأول."
(كتاب النكاح، باب لا تحل المطلقة ثلاثا لمطلقها حتى تنكح زوجا غيره، ج:4، ص:155، ط: دار الطباعة العامرة)
ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت کو شوہر نے تین طلاقیں دےدیں ، اس سے کسی دوسرے مرد نے نکاح کر لیا پھر جماع سے قبل طلاق دےدی، اب پہلے شوہر نے چاہا کہ اس سے دوبارہ نکاح کرلے۔ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: نہیں ! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کا وہی مزہ نہ چکھ لے جو پہلے نے چکھا تھا ( یعنی لذت جماع جو پہلے نے حاصل کی تھی وہی دوسرا بھی حاصل نہ کرلے )۔"(تحفۃ المنعم)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة» وبعد انقضائها وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز".
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:472، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وإن كانت مرسومة يقع الطلاق نوى أو لم ينو ثم المرسومة لا تخلو إما أن أرسل الطلاق بأن كتب: أما بعد فأنت طالق، فكما كتب هذا يقع الطلاق وتلزمها العدة من وقت الكتابة. وإن علق طلاقها بمجيء الكتاب بأن كتب: إذا جاءك كتابي فأنت طالق فجاءها الكتاب فقرأته أو لم تقرأ يقع الطلاق كذا في الخلاصة۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب"
(كتاب الطلاق، [مطلب في الطلاق بالكتابة، ج:3، ص:247، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144603100225
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن