بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بھائی کی اولاد کا دوسرے بھائی کو حصہ نہ دینے کی صورت میں بیٹے گناہ گار ہوں گے یا ان کے والد۔


سوال

ہم تین بھائی ایک بلڈنگ کے مالک ہیں،جس میں ہر بھائی کا برابر حصہ یعنی 33.33 کے حساب سےہے،ہم دو بھائی پاکستان میں اپنے اپنے پورشنز میں رہتے ہیں،جب کہ ہمارا تیسرا بھائی بیرون ملک مقیم ہے،مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی بھائی کو اپنے حصے کا تقاضہ ہو تو پورشن فروخت کرنے سے وہ حصہ نہیں دیا جاسکتا ،کیوں کہ پوری بلڈنگ ہی فروخت  کرناپڑے گی،تا کہ تینوں بھائیوں کو ان کاحصہ مل سکے،اس وقت اس بلڈنگ کے ہمارے حصے کے پورشن میں ہم دونوں بھائی اپنے خاندانوں  کے ساتھ رہائش پذیر ہیں،ہمارا تیسرا بھائی کبھی کبھار اپنے حصے کا تقاضا کرتا ہے،لیکن ہم نے اسے بتایا کہ فی الحال ہم  یہ بلڈنگ فروخت نہیں کرسکتے،کیوں کہ ہمیں کوئی اتنی بڑی جگہ نہیں مل رہی،جہاں ہم رہ سکیں،تو وہ مان گیا ہے،شاید اس لیے کہ وہ ہماری بڑی عزت کرتا ہے،ہم اپنی وصیت لکھنا چاہتے ہیں اور اپنی جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں،لیکن ہمارے جانے کے بعد ہمارے بچے بلڈنگ فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئے تو ہمارا تیسرے بھائی کو اس کاحصہ نہیں مل سکے گا،کیوں کہ اس وقت ہمارا حصہ قانونی طور پر ہمارے بچوں کے نام ہوجائے گا،اگر ہمارے بچے بلڈنگ فروخت کرنے سے انکار کردیں تو ہمارا تیسرا بھائی اپنا حق حاصل نہیں کرپائے گا،کیا ہمیں پوری بلڈنگ ابھی فروخت کرکے تیسرے بھائی کو اس کو حصہ دے دینا چاہیے،جب کہ اس سے ہمارے خاندان کو رہائش میں تنگی ہوگی؟یا کیا یہ بہتر ہوگا کہ ہم موجودہ بلڈنگ کو اپنے پاس رکھے اور وصیت میں ذکر کریں کہ ہمارے جانے کے بعدبلڈنگ فروخت کر تیسرے بھائی کو اس کا 33.33 حصہ دے دیا جائے،اور باقی حصہ ہمارے بچوں میں تقسیم کردیا جائے؟اگر ہمارے بچوں نے بلڈنگ فروخت کرنے سے انکار کردیا تو کیا اس صورت میں ہم گناہ گار ہوں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ بلڈنگ تینوں بھائیوں کی برابر کی ملکیت ہے،اگر دو بھائی اس  بلڈنگ کو فروخت نہیں کرنا چاہتے ہیں تو اس بلڈنگ کی موجودہ قیمت لگا کر تیسرے بھائی کو اس کے حصہ کی قیمت دے دیں اور دونوں بھائی پورے بلڈنگ کے مالک بن جائیں،یا دونوں بھائی کو یقین یا ظن غالب ہو کہ بچے بھائی کو ان کا حصہ نہیں دیں گے تو اس بلڈنگ کو ابھی فروخت کرنا ضروری ہےتا کہ ہر بھائی کو اس کے حصے کی رقم مل جائے یایقین ہو کہ بچے بھائی کو ان کا حصہ دیں گے تو اولاد کو جمع کرکے ان کو بتا دیا جائے کہ ان میں ہر بھائی کا برابر حصہ ہے ہمارے بعد جب بھی بلڈنگ فروخت کی جائے  تیسرےبھائی کو اس وقت کے حساب سے اس کے حصے کی رقم دینا ضروری ہے،اور اس کے لیے قانونی کاروائی بھی کی جائے  یعنی ابھی سے یہ بلڈنگ تینوں بھائیوں کے نام کر دی جائے،اس کے باوجود بعد میں بچے بھائی کو ان کا حصہ نہ دیں تو دونوں بھائی گناہ گار نہیں ہوں گے،بلکہ بچے گناہ گار ہوں گے ،اگر دونوں بھائیوں کو یقین ہو کہ بچے بعد میں تیسرے بھائی کو حصہ نہیں دیں گے اس کے باوجود دونوں بھائی تیسرے بھائی کو اس کا حصہ نہ دیں  تو  بچوں کے ساتھ دونوں بھائی بھی گناہ گار ہوں گے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

’’عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين.‘‘

(‌‌كتاب البيوع، ‌‌باب الغصب والعارية، ‌‌الفصل الأول، 887/2، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

وفیه أیضاً:

’’وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه.‘‘

(كتاب البيوع، باب الغصب والعاریة، 289/2 ط :المكتبه اسلامي بيروت)

تفسير  مظہری میں ہے:

’’وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى‘‘أيلا تحمل حاملة حمل نفس أخرى أي ثقلها من الآثام بل إنما تحمل وزر نفسها.‘‘

(سورة الإسراء، رقم الآیة: 15 ،421/5، ط: مكتبة الرشدية - الباكستان)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’الغصب.....وأما حكمه فالإثم والمغرم عند العلم.‘‘

(كتاب الغصب، الباب الأول، 119/5، ط: دارالفکر)

مجلة الأحکام العدلیہ میں ہے:

”لأحد الشريكين إن شاء بيع حصته إلى شريكه إن شاء باعها لآخر بدون إذن شريكه.“

(‌‌الكتاب العاشر، ‌‌الفصل الأول، ‌‌الفصل الثاني، ص: 209، ط: كارخانه تجارتِ كتب، آرام باغ، كراتشي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604102335

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں