میری عمر 22 سال ہے،اور میں گھر والوں کی اجازت سے ایک لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہوں، لیکن جس لڑکی کے ساتھ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں ،اس لڑکی کی تین سال کی عمر میں اس کے بھائی نے اپنے خالہ زاد بھائی سے نکاح کروادیا تھا،اس لڑکی کا بھائی نشہ کرتا تھا،اور جوا ہارنے کی وجہ سے اس کو پیسوں کی ضرورت تھی،جس کی وجہ سے اس نے اپنے خالہ سے پیسے لے کر بہن کی شادی اس کے بیٹے سے کروادی،نکاح کے وقت لڑکے کی عمر 18 سال اور لڑکی کی عمر 3 سال تھی۔جس وقت یہ بھائی اپنی بہن کا نکاح کروارہا تھااس وقت اس لڑکی کے والد اور دادا موجود نہیں تھے،کیوں کہ ان دونوں کا انتقال پہلے ہوچکا تھا۔
پھر جب یہ لڑکی بالغہ ہوئی تو اس نے نکاح کوقبول کرنے سے انکار کردیااور اس لڑکے کے ساتھ نکاح کرنے پروہ راضی نہیں ہے،نیز جس خالہ زاد بھائی کے ساتھ اس لڑکی کا نکاح ہوا ہےوہ بھی نشہ کرتا ہے،جب کہ یہ لڑکی میڈیکل اسٹوڈنٹ ہے،اور حافظہ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ عالمہ کا کورس بھی کررہی ہے۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا مذکورہ لڑکی سے میرا نکاح کرنا شرعاً درست ہے؟اور جو پہلے نکاح ہوا تھا وہ ابھی تک قائم ہے یا لڑکی کے انکار سے ختم ہوگیا ہے؟اگر پہلا نکاح ابھی تک قائم ہےتو اس کو شرعی طور پر کیسے ختم کیا جائے؟کیوں کہ لڑکا طلا ق یا خلع کے لیے راضی نہیں ہے؟
واضح رہے کہ اگر کسی نابالغہ لڑکی کا نکاح بچپن میں اس کے والد اور دادا کے علاوہ کوئی اور فردکروائے تو بلوغت کے بعد اسے نکاح کے فسخ کااختیار ہوتاہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ لڑکی نے بالغہ ہونے کے بعداپنے بھائی کے کیے ہوئے نکاح کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہےتو محض انکار کرنے سے یہ نکاح ختم نہیں ہوا ہے،بلکہ اس انکا ر کی وجہ سے لڑکی کوخیار ِ بلوغت کی بنیادپر تنسیخ ِ نکا ح کا حق حاصل ہوگیاہے،لہذا اگر لڑکی کہیں اور شادی کرنا چاہتی ہےتو اولاًخیارِ بلوغت کی بنیاد پر عدالت کے ذریعہ بھائی کے کیے ہوئے اس نکاح کو فسخ کرلے،پھر اس کے بعد سائل کے لیے مذکورہ لڑکی سے نکاح کرنا شرعاًجائز ہوگا،فسخِ نکاح سے پہلے سائل کے لیے مذکورہ لڑکی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإن كان المزوج غيرهما) أي غير الأب وأبيه ولو الأم أو القاضي أو وكيل الأب، لكن في النهر بحثا لو عين لوكيله القدر صح.(لا يصح) النكاح (من غير كفء أو بغبن فاحش أصلا) وما في صدر الشريعة صح ولهما فسخهوهم (وإن كان من كفء وبمهر المثل صح و) لكن (لهما) أي لصغير وصغيرة وملحق بهما (خيار الفسخ) ولو بعد الدخول (بالبلوغ أو العلم بالنكاح بعده) لقصور الشفقة ويغني عنه خيار العتق، ولو بلغت وهو صغير فرق بحضرة أبيه أو وصيه (بشرط القضاء) للفسخ (فيتوارثان فيه) ويلزم كل المهر ثم الفرقة إن من قبلها ففسخ."
(کتاب النکاح، باب الولی، ج:3، ص:69، ط:سعید)
البحرالرائق میں ہے :
"( قوله: ولهما خيار الفسخ بالبلوغ في غير الأب والجد بشرط القضاء) أي للصغير والصغيرة إذا بلغا وقد زوجا، أن يفسخا عقد النكاح الصادر من ولي غير أب ولا جد بشرط قضاء القاضي بالفرقة، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهماالله ... بخلاف ما إذا زوجها الأب والجد؛ فإنه لا خيار لهما بعد بلوغهما؛ لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ."
(كتاب النكاح، باب في الأولياء و الأكفاء، ج:3، ص:128، ط:دار الکتاب الاسلامی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101894
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن