بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

بھنگ، تمباکو کاشت کرنا اور اس کی کاشت کے لیے زمین ٹھیکہ پر دے کر کمائی کرنے کا حکم


سوال

تمباکو بھنگ وغیرہ کاشت کرنا کیسا ہے؟ جب کہ حکومت کی طرف سے پابندی بھی نہ ہو اور زمین بھنگ وغیرہ کے علاوہ کچھ اور کاشت کرنے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو تو ایسی صورت میں بھنگ کاشت کرنا اور اسی کام کے لیے زمین ٹھیکہ پر دے کر کمائی کرنا شرعاً کیسا ہے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں بھنگ و تمباکو کی کاشت جائز امور کی غرض سے ہو تو جائزہے ، اور اس کے لیے زمین اجارہ/ٹھیکہ  پر دینا، ذریعہ آمدن بنانا،دوا ساز اداروں کو یا کسی ایسے شخص کو فروخت کرنا جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ وہ اس سے کیا بنائے گاجائز ہے،تاہم  بھنگ  و تمباکو صرف نشہ کی غرض سے استعمال کرنا حرام ہے، اس لیے محض  نشہ آوری اور کسی بھی ناجائز مقصد  کی غرض سے یا  قانونی طور پر پابندی ہو تو ان اشیاء کی کاشت کرنا اور کسی ایسے شخص کے ساتھ ان اشیاء کے معاملات کرنا جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ اسے ناجائز مقاصد میں استعمال کرے گامکروہِ تحریمی ہے،  نیز اگر حکومت کی طرف سے اس کی کاشت پر پابندی ہو تو پھر بھنگ و تمباکو کی  کاشت نہ کی جائے، اور کاشت کے لیے اپنی زمین کرایہ پر نہ دی جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) جاز (‌بيع ‌عصير) ‌عنب (ممن) يعلم أنه (يتخذه خمرا) لان المعصية لا تقوم بعينه بل بعدتغيره، وقيل يكره لاعانته على المعصية".

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ‌‌فصل في البيع، ج:6، ص:391، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة ‌بيع ‌الحشيشة والأفيون.قلت: وقد سئل ابن نجيم عن ‌بيع ‌الحشيشة هل يجوز؟ فكتب لا يجوز، فيحمل على أن مراده بعدم الجواز عدم الحل".

(‌‌كتاب الحظر والإباحة، ‌‌كتاب الأشربة، ج:6، ص:454، ط:سعيد)

کفایت المفتی میں ہے:

’’افیون ، چرس ، بھنگ ، یہ تمام چیزیں پاک ہیں،اور ان کا دوا میں خارجی استعمال جائز ہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرناناجائز ہے ، مگر ان سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کی مباح ہے، تجارت تو شراب اور خنزیر کی حرام ہے، کہ ان کا استعمال خارجی بھی ناجائز ہے‘‘۔

(كتاب الحظر والإباحة، چھٹا باب ماَکولات ومشروبات، ج:9، ص:129، ط:دار الاِشاعت)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’افیون کی آمدنی سے جو زمین خریدکر اس میں کاشت کرتے ہیں اس کاشت کی آمدنی کو حرام نہیں کہا جائے گا، ایسی آمدنی سے چندہ لینا بھی درست ہے، اور ان کے ہاں کھانا پینا بھی درست ہے‘‘۔

(کتاب البیوع، باب البیع الباطل والفاسد والمکروہ، الفصل الثالث فی البیع المکروہ، ج:16، ص:123، ط: دار الاِشاعت)

وفیہ ایضاً:

’’تمباکو کی کاشت بھی جائز ہے اور تجارت بھی جائز ہے، استعمال بھی جائز ہے، الا یہ کہ وہ نشہ آور ہو تب منع کیا جائے گا، مسجد میں جانے کے لیے منہ صاف کر کے اس کی  بدبو کو  زائل کر نے کا اہتمام کیا جائے‘‘۔

(تمباکو کی کاشت، تجارت، اور استعمال، ج:18، ص:397، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503101992

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں