ایک خاتون نے کچھ عرصہ قبل اپنے بھانجے کو ایک عدد پلاٹ ہدیہ کے طور پر دے دیا، پلاٹ کو ہدیہ کرتے وقت اپنے قبضہ وتصرف سے الگ کرکے مالکانہ طور پر مکمل قبضہ دیا، اس کے بعد بھانجے نے سوسائٹی لیز بھی اپنے نام کرلی، اب وہ خاتون اپنا پلاٹ واپس لینا چاہتی ہے اور تقاضہ کرتی ہے کہ اب میری مالی حالات ٹھیک نہیں ہے، لہذا میرا پلاٹ واپس دے دیں، آیا وہ شرعاً واپس لینے کی حق دار ہے؟ اور ایسی صورت میں بھانجے کے لیے اس پلاٹ سے فائدہ اٹھانا جائز ہے نہیں یا وہ پلاٹ واپس نہ کرکے گناہ کا مرتکب اور دوسرے کا حق کھانے والے شمار ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ مذکورہ خاتون نے اپنا ملکیتی پلاٹ اپنے بھانجے کو گفٹ کردیا تھا اور اسے مکمل قبضہ اور تصرف کے اختیار کے ساتھ دے دیا تھا اور گفٹ کرتے وقت اس سے اپنا تصرف ختم کردیا تھا تو بھانجا اس پلاٹ کا مالک بن گیا، لہذا اب مذکورہ خاتون اس پلاٹ کو بھانجے سے واپس نہیں لے سکتی، البتہ اگر بھانجا اپنی خوشی ورضا سے دوبارہ اپنی خالہ کو ہدیہ کردے تو یہ اس کی طرف سے تبرع واحسان ہوگا۔باقی اگر خالہ کی مالی حالت ٹھیک نہیں ہے تو بھانجے کو حسب استطاعت اس کا تعاون کرنا چاہیے ، ایک تو وہ خالہ ہےجو ماں کے درجہ میں ہوتی ہےاور دوسرا یہ ہے کہ اس نے اپنی خوشحالی کے زمانہ میں پلاٹ وغیرہ دے کر تعاون بھی کیا تھا، اور احسان کا بدلہ احسان سے دینا حسن ِ اخلاق میں سے ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ليس له حق الرجوع بعد التسليم في ذي الرحم المحرم وفيما سوى ذلك له حق الرجوع إلا أن بعد التسليم لا ينفرد الواهب بالرجوع بل يحتاج فيه إلى القضاء أو الرضا أو قبل التسليم ينفرد الواهب... أما العوارض المانعة من الرجوع فأنواع ... (ومنها القرابة المحرمية) ، سواء كان القريب مسلما أو كافرا، كذا في الشمني.ولا يرجع في الهبة من المحارم بالقرابة كالآباء والأمهات، وإن علوا والأولاد، وإن سفلوا وأولاد البنين والبنات في ذلك سواء وكذلك الإخوة والأخوات والأعمام والعمات والمحرمية بالسبب لا بالقرابة لا تمنع الرجوع كالآباء والأمهات والإخوة والأخوات من الرضاع، وكذا المحرمية بالمصاهرة كأمهات النساء والربائب وأزواج البنين والبنات، كذا في خزانة المفتين."
(كتاب الهبة، الباب الخامس في الرجوع في الهبة، 4/ 385، 386، ط:رشيدية)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601102432
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن