بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بھابھی کے ورثاء میں دیورنہیں/سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد ملنے والی رقم کاحکم


سوال

ایک عورت کا شوہر فوت ہوگیا جو کہ سرکاری ملازم تھا،اور اس کے 10 یا 12 لاکھ روپے  اس کی بیوہ کو  مل گئے،اوراولاد  بھی نہیں ہے،وہ عورت اپنا جہیز سامان وغیرہ لے کر والد کے ہاں رہ رہی تھی،اب وہ عورت بھی فوت ہوگئی ہے، جو پیسے اس کے پاس تھے اس میں سےکچھ باقی ہیں،اب ان پیسوں کا وارث کون ہوگا؟دیور یا بھائی ؟اور نکاح میں جو کمرہ لکھا گیا تھا،اس کا وارث  کون بنے گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں  حکومت کی طرف سے شوہر کے انتقال کے بعد   جو 10 یا 12 لاکھ  روپےاس کی بیوہ کو  مل گئے تھے، اگر وہ بیوہ کے نام پر جاری  کئے گئے تھے تو وہ  بیوہ کا حق تھا، لہذا اب بیوہ کے انتقال کے بعد بیوہ کے ورثا میں اس کی تقسیم ہوگی ،اوربیوہ کے ورثامیں دیور  نہیں ہے،پس بیوہ کے کل ترکہ  کو اس کے والدین اور بھائی بہنوں کے درمیان  تقسیم کیا جائےگا ،البتہ  اگرشوہر کے انتقال سے پہلے تن خواہ یا کوئی فنڈ تھے یا اور کوئی ان کی ملکیت میں چیزیں تھیں ،اس میں شرعی ضابطہ کے مطابق وراثت جاری ہوگی،اور  شوہر کے ورثامیں تقسیم ہوگی، جس میں بیوہ سمیت بھائیوں  (مذکورہ خاتون کے دیور)وغیرہ کابھی شرعی حصہ  ہوگا۔

نیز  مرحومہ کو نکاح کے موقع پر  جو کمرہ لکھا گیا تھا،اگر  یہ  حق مہر  کے طور پر  تھا تو یہ بہر صورت عورت کو ملے گا اور اگر یہ مہر کے علاوہ   گفٹ   کے طور پراس کے نام لکھا تھا اورنام کرنے کے ساتھ ساتھ مالکانہ قبضہ وتصرف کا حق بھی دے دیا تھا تو پھر وہ کمرہ مرحومہ کےترکہ شمار ہوکر مرحومہ کے ورثا میں تقسیم ہوگا، اور اگر مالکانہ قبضہ  وتصرف دیے بغیر صرف نام کردیا تھا تو اس صورت میں یہ کمرہ مرحوم شوہر کے ترکہ میں شامل کرکے حسب ضابطہ شرعی تقسیم کیا جائے گا،جس میں مرحوم کی بیوہ سمیت مرحوم  کےبھائیوں  وغیرہ کو بھی حصہ ملے گا۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو ‌حق ‌للمورث على ما قال عليه الصلاة والسلام من ترك مالا أو حقا فهو لورثته."

(کتاب الحدود،57/7، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويستحق الإرث بإحدى خصال ثلاث: بالنسب و هو القرابة، و السبب وهو الزوجية، والولاء."

(الباب الثانی فی ذوی الفروض، 447/6، ط: دار الفکر)

وفیہ ایضاً:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز،378/4،ط: دار الفکر)

غمز عیون البصائر   فی شرح الاشباہ میں ہے:

" أسباب التملك: المعاوضات المالية والأمهار والخلع والميراث والهبات والصدقات والوصايا."

(القول فی الملک وفیه مسائل، الأولی أسباب التملک، 461/3، ط: دار الكتب العلمية)

امداد الفتاوی میں ہے:

"چونکہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے، اوریہ وظیفہ محض تبرع و احسان سرکار کا ہے بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا ،لہذا آئندہ جو وظیفہ  ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی،سرکار کو اختیار ہے کہ جس طرح چاہے تقسیم کر دے، البتہ اگر یہ وظیفہ کسی جائداد مملوکہ کا نفع جائز ہے تو اس میں میرا ث جاری ہوگی۔"

( کتاب الفرائض،342/4، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں