بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بھیک مانگ کر حاصل کیے گئے پیسوں سے قربانی کا حکم


سوال

ہم لوگوں کا بھیک مانگنے کا پیشہ ہے، کیا ہم لوگ قربانی کر سکتے ہیں یا نہیں؟ بھیک کے پیسوں سے قربانی ہوگی یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص شدید مجبوری اور فقر کی صورت میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور بھیک مانگے، تو شرعاً اس کی گنجائش ہے،   لیکن اس کام کو مستقل پیشہ بنالینا   اور بلا ضرورت مانگنا حرام ہے،  اسلام میں ایسے عمل کی حوصلہ شکنی کرکے معاشرے کی صلاح و فلاح کی خاطر  انسان کو اپنے ہاتھ سے کمانے کی ترغیب دی گئی ہےاور  محنت کی کمائی کو  ہی اللہ کے نزدیک  سب سے محبوب اور پسندیدہ کمائی  قراردیا ہے،چناں چہ  آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ"اللہ تعالیٰ کو وہ کھانا سب سے زیادہ پسند ہے جسے انسان اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے."۔

ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا:'' کسی آدمی کے لیے اس سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے کہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے کھائے اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے."

 جب کہ اس کے برخلاف جو لوگ  کمانے پر قدرت رکھنے کے باوجودبلا ضرورت لوگوں سے  بھیک مانگتے ہیں ان کے لیے حدیث میں شدید وعیدیں آئی ہیں ،جن میں سے بعض یہ ہیں:

 قیامت کے دن ایسے شخص کے چہرے پر گوشت نہیں ہوگا۔

 ایسا شخص جہنم کے انگارے جمع کررہا ہے،زیادہ بھیک ملی تو زیادہ  انگارے جمع کرلیے ،کم بھیک ملی تو کم انگارے جمع کیے۔

 ایسے شخص کی کمائی میں بالکل بھی برکت نہیں ہوتی۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آپ کے لیے بھیک مانگنے کو مستقل اپنا پیشہ بنانا ناجائز اور حرام ہے، شریعتِ مطہرہ میں ا س عمل کی قطعاً اجازت نہیں ہے، البتہ اب تک جو پیسہ آپ اس طرح لوگوں سے حاصل کرچکے ہیں، وہ آپ کی ملکیت ہے، آپ اسے  اپنی مرضی سے خرچ کر سکتے ہیں اور ان پیسوں سے قربانی بھی کر سکتے ہیں۔ 

البتہ آئندہ آپ کو چاہیے کہ  اس عمل سے صدقِ دل سے اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں اور آئندہ یہ عمل نہ کرنے کا پختہ عزم کریں اور کوئی حلال روزگار تلاش کر کے اسے اپنا ذریعہ آمدن بنائیں۔

مسندأحمد میں ہے:

"عن المقدام بن معدي كرب، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ‌ما ‌أكل ‌أحد ‌منكم ‌طعاما أحب إلى الله عز وجل من عمل يديه."

(مسند الشاميين،‌‌ حديث المقدام بن معديكرب الكندي أبي كريمة  عن النبي صلى الله عليه وسلم، ج:28، ص:418، رقم الحديث:17181، ط: مؤسسة الرسالة)

بخاری شریف میں ہے:

"عن المقدام رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (‌ما ‌أكل ‌أحد ‌طعاما ‌قط، خيرا من أن يأكل من عمل يده، وإن نبي الله داود عليه السلام كان يأكل من عمل يده)."

(كتاب البيوع، باب: كسب الرجل وعمله بيده، ج:1، ص:278، ط:قديمي)

وفیہ أیضاً:

"عن عبيد الله بن أبي جعفر قال: سمعت حمزة بن عبد الله بن عمر قال: سمعت عبد الله بن عمر رضي الله عنه قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (ما يزال الرجل يسأل الناس، حتى يأتي يوم القيامة ‌ليس ‌في ‌وجهه ‌مزعة ‌لحم) إلخ."

(كتاب الزكاة،باب: من سأل الناس تكثرا،ج:1، ص:199، ط:قديمي)

صحیح مسلم میں ہے: 

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌من ‌سأل ‌الناس ‌أموالهم تكثرا، فإنما يسأل جمرا فليستقل، أو ليستكثر »."

وفیہ أیضاً:

"عن معاوية قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌لا ‌تلحفوا ‌في ‌المسألة، فوالله لا يسألني أحد منكم شيئا، فتخرج له مسألته مني شيئا، وأنا له كاره، فيبارك له فيما أعطيته."

(كتاب الزكاة، ‌‌باب النهي عن المسألة، ج:1، ص:333، ط:قديمي)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا لا تظلموا ألا ‌لا ‌يحل ‌مال امرئ إلا بطيب نفس منه."

ترجمہ: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:خبردار کسی پر بھی ظلم نہ کرنا، اچھی طرح سنو!کہ کسی دوسرے شخص کا مال اس کی خوشی  کے بغیر  حلال نہیں ہے۔"

(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ص: 255، ط: قديمي)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"قال النووي في شرحه: ‌اتفق ‌العلماء ‌على ‌النهي عن السؤال لغير ضرورة، واختلف أصحابنا في مسألة القادر على الكسب على وجهين أصحهما أنهما حرام لظاهر الأحاديث، والثاني حلال مع الكرهة بثلاثة شروط ألا يذل نفسه ولا يلح في السؤال ولا يكلف بالمسئول، فإن فقد أحد الشروط فحرام بالاتفاق."

(كتاب الزكاة، باب من لا تحل له المسألة ومن تحل له، الفصل الأول،ج:4، ص:174، ط:إمدادية، ملتان)

رد المحتار میں ہے:

"(دفع بتحر) لمن يظنه مصرفا (فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستأمنا أعادها)لما مر (وإن بان غناه أو كونه ذميا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا) يعيد لأنه أتى بما في وسعه.

(قوله: لمن يظنه مصرفا)....واعلم أن المدفوع إليه لو كان جالسا في صف الفقراء يصنع صنعهم أو كان عليه زيهم أو سأله فأعطاه كانت هذه الأسباب بمنزلة التحري كذا في المبسوط حتى لو ظهر غناه لم يعد."

(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، ج:2، ص:352،353، ط:سعيد)

فتاوی محمودیہ میں (صدقاتِ نافلہ کے متعلق لکھا)ہے:

"کسی نے بھیک مانگ کر جو غلہ جمع کیا ہے،وہ اس کا مالک ہوگیا ،جب وہ دوکان پر لے جا کر فروخت کرتا ہے تو دوکان دار کو اس کا خریدنا درست ہے."

(کتاب البیوع، باب البیع الصحیح، زیرِ عنوان:بھیک کے مال کی فروختگی، ج:16،ص:59،60، ط:إدارۃ الفاروق  ،کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100698

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں