بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیع فسخ کرنے کے بعد رقم کی ادائیگی کس حساب سے ہوگی


سوال

1۔کیا فرماتے ہیں اس مسئلے  کے بارے میں  کہ" زید "نے "عمر" کو ایک زمین فی گز  پاکستانی پانچ سو روپے میں فروخت  کی،ا  ور آدھے پیسے ادا کر چکا تھا، کہ دوسرے آدمی نے اس زمین پر جبرا قبضہ کر لیا، تو جب "زید "کو پتہ چلا ، تو" زید "نے" عمر"سے کہا کہ چونکہ آپ غریب ہو ،ہم آپ کو آپ کے پیسے واپس کر دیں گے، اور "زید" نے  یہ بیع فسخ کر کےغاصب سے کہا کہ چلو ہم وہ زمین آپ کو کم قیمت پر  فروخت کرتے ہیں، غاصب  اس پرراضی ہوگیا، اور" زید" نے وہ زمین غاصب کو فی گز(300)  پاکستانی روپے میں فروخت کر دی،  کچھ عرصہ بعد غاصب نے اس زمین کی رقم افغانی کرنسی کی صورت میں دے دی (اور اس وقت افغانی کرنسی کی قیمت اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی کہ آج کل ہے) "زید "نے وہ افغانی کرنسی " عمر"( مشتری اول) کو دے دی (یعنی افغانی کرنسی دے دی اور پاکستانی کرنسی میں تبدیل نہیں کئے تھے، بلکہ زید نے کہا کہ یہ افغانی کرنسی اپنے پاس رکھ لو  ،اور یہ رقم بطور ادئیگی دی تھی) تو اب کچھ عرصہ بعد  "عمر"زمین کے اپنے باقی پیسے مانگ رہا ہے، اور "زید" کہہ رہا ہے کہ بھائی ہم نے اس وقت آپ کو افغانی کرنسی دی تھی، پاکستانی کرنسی میں تبدیل نہیں کی تھی،تو اس لیے  ابھی  جوافغانی کرنسی کی قیمت ہے،اس کا اعتبار ہوگا، اور اس حساب سے جتنے پاکستانی پیسے بن رہے ہیں،وہ آپ کے پیسوں میں سے کاٹ دیے جائیں گے،اور باقی جتنے رہ جائیں گے، وہ دے دیں گے ، اور "عمر" کہہ رہا ہے کہ نہیں جس وقت آپ نے مجھے افغانی کرنسی دی تھی،اس وقت  افغانی کرنسی کی جوقیمت تھی، اس کا اعتبار ہوگا، ابھی کا نہیں، اور "زید "کہہ رہا ہے کہ اس وقت تو میں نے افغانی کر نسی دی تھی، پاکستانی کرنسی سےتبدیل تو نہیں کی تھی، لہذا اب آج کی قیمت کے اعتبار سے اس کا حساب لگایا جائے گا، تو اب سوال یہ ہے کہ کون سے وقت کی قیمت کا اعتبار ہو گا ،جس وقت افغانی کرنسی دی تھی یا جب وہ پیسوں کا مطالبہ کر رہا ہے ،اس وقت کی قیمت کا اعتبار ہوگا؟ چو نکہ اس وقت افغانی کرنسی کی قیمت بہت کم تھی اور اب بہت زیادہ ہے۔

2۔ زید نے "بکر "سے ایک دکان دس ہزار (10000) ڈالر کی خریدی  اور چھ ہزار (6000) ڈالر نقدادا کیے، اور کہا کہ چار ہزار (4000) بعد میں دے دوں گا،  کچھ عرصہ بعد" زید "نے "بکر" سے کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں کہ آپ کو باقی (4000) ہزار دوں، لہذا ہم اس بیع کو فسخ کرتے ہیں ، تو بکر نے کہا صحیح ہے، لیکن آپ نے جو چھ ہزار ڈالر دیےتھے، اس وقت جتنی قیمت ڈالر کی تھی، اس حساب سے میں آپ کو پیسے  واپس دوں گا، (چونکہ اس وقت ڈالر کی قیمت زیادہ نہیں تھی ، اور اب تو بہت زیادہ ہے) "زید" کہہ رہا   ہے  کہ نہیں ،بلکہ۔ مجھے اپنے چھ ہزار (6000) ڈالر دو گے، کیوں کہ میں نے آپ کو چھ ہزار (6000) ڈالر دیےتھے، اور سودا بھی ڈالر پر ہوا تھا، لہذا آپ مجھےچھ ہزار ڈالر دو گے ، اب سوال یہ ہے کہ کیا بکر" زید کو چھ(  6000) ڈالر دے گا یا اُس وقت ڈالر کی جو قیمت تھی ؟

جواب

1۔صورت  مسئولہ میں زیدنے عمر کو ا س وقت افغانی کرنسی  کی صورت میں جورقم بطور ادئیگی دی تھی ، وہ اسی وقت کی قیمت کے اعتبار سے ادا ہو چکی ہے،اب زید عمر کی بقیہ رقم  پاکستانی روپے کےحساب سے  ادا کرے گا، چاہے اس کی موجودہ حیثیت کم ہو یا زیادہ ہو،اب پہلے دی گئی افغان کرنسی کو موجودہ ریٹ سے شمار کرنا درست نہیں ہے ،گویا عمر کا موقف درست ہے ،زید کی رائے غلط ہے۔

2۔صورت  مسئولہ میں اگر دونوں فریق سودا ختم کرنے پر راضی ہیں توزید اپنی رقم ڈالر کی صورت میں  واپس لینے کا حق دار ہے، چاہے واپسی کے وقت اس کرنسی کی مالیت بازار میں کم ہوچکی ہو یا زیادہ ہوچکی ہو،اور اگر بکر اس پر راضی نہیں ہے،تو وہ سودا فسخ نہ کرے،بلکہ زید کو مزید چار ہزار ڈالر دینے کا پابند کرے۔

فتاوی  شامی میں ہے:

"فإن الديون تقضى بأمثالها فيثبت للمديون بذمة الدائن مثل ما للدائن بذمته فيلتقيان قصاصًا."

(كتاب الشركة، مطلب في قبول قوله دفعت المال بعد موت الشريك أو الموكل،ج:4،ص:320،ط: سعید)

 تنقيح الفتاوی الحامدیة میں ہے:

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم و تصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟(الجواب) : نعم و لاينظر إلى غلاء الدراهم و رخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".

(كتاب البيوع،باب القرض،ج:1،ص:279،ط: دار المعرفه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601101622

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں