میری والدہ کا ا انتقال ہوئے دس بارہ سال ہوگئے،ورثاء میں چار بیٹے چار بیٹیاں ہیں، اور والدہ کے والدین وفات پاچکے ہیں،ترکہ میں کئی پراپرٹی ہیں،کچھ ایسی ہیں جسے فروخت ہونے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی،کچھ پراپر ٹی کے خریدار نہیں ملیں گے یا ٹائم لگے گا،تمام ترکہ والدہ کا ہے،کچھ بھائیوں کا مشورہ ہے کہ سب پراپرٹی فروخت کرکے بہنوں کو ان کا حصہ دیا جائے اور کچھ کا مشورہ ہے کہ ایک بڑی پراپرٹی فروخت کرکے بیٹیوں کو ان کا حصہ دیا جائے،کیونکہ بہنیں بہت بوڑھی اور بیمار رہتی ہیں،اگر ایک پراپرٹی سیل کرکے بہنوں کو فارغ کرتے ہیں تو بعد میں اگر دوسری پراپرٹی کے ریٹ میں فرق آگیا تو جھگڑے کا امکان ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ :
1۔ والدہ کی جائیداد کس طرح تقسیم ہوگی؟
2۔کیا شریعت کی رو سے یہ ہوسکتا ہے کہ فی الحال ایک بڑی پراپرٹی فروخت کرکے بہنوں کو ان کا شرعی حصہ دے دیا جائے اور باقی پراپرٹی بھائیوں کے درمیان رہنے دے دیاجائے،بعد میں سہولت ہونے پر فروخت کیاجائے؟
صورت مسئولہ میں مرحومہ کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کاخرچہ نکالنے کے بعد،اگر مرحومہ پر کوئی قرضہ ہے تو اس کو کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو بقیہ مال کے ایک تہائی سے نافذ کرنے کے بعد،مابقیہ کل مال کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک بیٹے کو دوحصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملیں گا۔
صورت تقسیم یہ ہے:
مرحومہ بیوہ:12
بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
2 | 2 | 2 | 2 | 1 | 1 | 1 | 1 |
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهما منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا."
(كتاب الصلح،الباب الخامس عشر في صلح الورثة و الوصي في الميراث والوصية، ج: 4، ص: 268، ط: دار الفكر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604100651
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن