بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بلا شرط تفویض شدہ طلاق، نکاح کے چھ سال بعد واقع کرنے کا حکم


سوال

 شوہر نے بیوی کو نکاح کے وقت  کسی شرط کے بیان کیے بغیر   طلاق کا حق تفویض کیا تھا،  جیسا کہ منسلکہ طلاق نامہ میں درج ہے کہ "آیا شوہر نے طلاق کا حق بیوی کو تفویض  کردیا ہے: جی ہاں"

جو کہ بیوی نے چھ سال بعد تحریری طور پر  اپنے اوپر  تین طلاقیں واقع کرکے   تفویض کا حق استعمال کیا ہے۔بیوی کی تحریر درج ذیل ہے:

"having exercised the delegated powers of divorce i.e. Talaq-e-Tafweez, in presence of witnesses cited herein below I, hereby declare DIVORCE - DIVORCE -DIVORCE thrice irrevocably upon myself."

دوران عدت شوہر اور بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق قائم ہوا ۔ اب عدت کے ختم ہونے کے بعد بیوی  کو پتا چلا کہ وہ حاملہ ہے۔ جب یہ بات بیوی نے اپنے شوہر کو بتائی تو شوہر نے اس بچہ کو قبول کرنے سے منع کیا،  اور بیوی کو کہا کہ اس حمل کو ضایع کردو۔ حمل کی مدت ایک مہینے سے کم بتائی جا رہی ہے ۔ مذکورہ صورت حال میں درج  ذیل سوالات کا حل  مطلوب ہے ۔

1۔ کیا طلاق واقع ہو گئی ؟

2۔ تین طلاق کے بعد عدت میں ازدواجی تعلق کی کیا حیثیت ہے؟

3۔ اس حمل کے بارے میں کیا حکم ہے ؟ کیا اسکو ضایع کیا جاسکتا ہے؟

4۔ حمل کو باقی رکھا  جاتا ہے ، تو اس دوران طلاق کا کیا حکم ہے؟

5۔  اس  بچہ کی ولدیت بارے میں کیا حکم ہے؟ 

5۔پیدائش  کے بعد بچہ کے نفقہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

1۔ نکاح کے موقع پر  دولہن کی جانب سے تفویض طلاق کی شرط  پر اگر نکاح  ہوا ہے، اور دولہا نے مذکورہ شرط کو قبول کیا ہو، تو اس صورت میں نکاح کے بعد بیوی جب چاہے اپنے اوپر طلاق واقع کرنے کی شرعا حقدار ہوتی ہے، تاہم مطلق تفویض کی صورت میں بیوی کو صرف ایک طلاق واقع کرنے کا  شرعا اختیار ہوتا ہے، ایک سے زائد طلاق واقع کرنے کی صورت میں زائد طلاق شرعا واقع نہیں ہوتیں،  لہذا صورت مسئولہ  میں نکاح کے  چھ سال بعد بیوی نے تحریری طور پر جب اپنے اور  سوال میں درج  جملے  سے طلاق واقع کی  ، تو اس سے بیوی پر صرف ایک طلاق رجعی واقع ہوگی، البتہ دوسری اور تیسری طلاقیں واقع نہیں ہوں گی،اور دوران عدت چونکہ میاں بیوی کے درمیان ازدواجی تعلق قائم ہوتا رہا، جس کی وجہ سے  رجوع ہوگیا ہے،  اور نکاح بدستور قائم ہے،  مذکورہ خاتون کے لیے کسی اور شخص سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے،  اور آئندہ کے لیے شوہر کے پاس صرف دو طلاق کا حق ہوگا۔

2۔ مسئولہ صورت میں  چونکہ بیوی پر ایک   طلاق  رجعی واقع ہوئی تھی، جس کی بناء پر شوہر کے لیے عدت کے دوران بیوی سے رجوع کرنا جائز تھا، لہذا  عدت کے دوران جو ازدواجی تعلق قائم ہوا،  وہ جائز تھا۔

3۔ مذکورہ حمل حلال ہے، لہذا اسے ضائع کرنا جائز نہیں ہے۔

4۔  مسئولہ صورت میں  حمل گرانا جائز نہیں ہے، بیوی نے جو اپنے اوپر تین طلاقیں واقع کی تھیں، ان میں سے صرف  ایک طلاق واقع ہوئی تھی، بقیہ دو طلاقیں شرعا معتبر  نہیں ہوں گی، مذکورہ ازدواجی تعلق کی وجہ سے جو حمل ہوا ہے، وہ جائز ہے۔

5۔ پیدا ہونے والا بچہ کا   نسب مذکورہ شخص سے ثابت  ہوگا۔

6۔ پیدائش  کے بعد بچہ کا نفقہ والد ( مذکورہ شخص) پر لازم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"رجل تزوج امرأة على أنها طالق أو على أن أمرها في الطلاق بيدها ذكر محمد - رحمه الله تعالى - في الجامع أنه يجوز النكاح والطلاق باطل ولا يكون الأمر بيدها وقال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى -: هذا إذا بدأ الزوج فقال: تزوجتك على أنك طالق وإن ابتدأت المرأة فقالت: زوجت نفسي منك على أني طالق أو على أن يكون الأمر بيدي أطلق نفسي كلما شئت فقال الزوج: قبلت؛ جاز النكاح ويقع الطلاق ويكون الأمر بيدها."

(كتاب النكاح، الباب الثاني فيما ينعقد به النكاح وما لا ينعقد به، ١ / ٢٧٣، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"ولو قال لها: أنت طالق إذا شئت أو إذا ما شئت أو متى شئت أو متى ما شئت فلها أن تطلق نفسها في أي وقت شاءت في المجلس أو بعده وبعد القيام عنه لما مر، وليس لها أن تطلق نفسها إلا واحدة؛ لأنه ليس في هذه الألفاظ ما يدل على التكرار على ما مر."

(كتاب الطلاق، فصل في قوله أنت طالق إن شئت، ٦ / ١٢١، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية."

(كتاب الكراهية، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات وفيه العزل وإسقاط الولد، ٥ / ٣٥٦، ط: دارالفكر)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"أما الأول فنسب الولد من الرجل لا يثبت إلا بالفراش وهو أن تصير المرأة فراشا له لقوله صلي الله عليه وسلم: «الولد للفراش وللعاهر الحجر» ... ودلالة الحديث من وجوه ثلاثة: أحدها: أن النبي صلي الله عليه وسلم أخرج الكلام مخرج القسمة فجعل الولد لصاحب الفراش والحجر للزاني فاقتضى أن لا يكون الولد لمن لا فراش له كما لا يكون الحجر لمن لا زنا منه إذ القسمة تنفي الشركة والثاني أنه صلي الله عليه وسلم جعل الولد لصاحب الفراش ونفاه عن الزاني بقوله صلي الله عليه وسلم وللعاهر الحجر لأن مثل هذا الكلام يستعمل في النفي والثالث أنه جعل كل جنس الولد لصاحب الفراش فلو ثبت نسب ولد لمن ليس بصاحب الفراش لم يكن كل جنس الولد لصاحب الفراش وهذا خلاف النص فعلى هذا إذا زنى رجل بامرأة فجاءت بولد فادعاه الزاني لم يثبت نسبه منه لانعدام الفراش وأما المرأة فيثبت نسبه منها لأن الحكم في جانبها يتبع الولادة."

(كتاب الدعوي، دعوى النسب، بيان ما يثبت به النسب، ٦ / ٢٤٢، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"نفقة الأولاد الصغار علي الأب، لا يشاركه أحدٌ، كذا في الجوهرة النيرة... و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

و لايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١ / ٥٦٠ - ٥٦٢، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144603102087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں