بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بلڈر حضرات پر فلیٹوں کی زکوٰۃ اور اس کی ادائیگی کا طریقہ


سوال

ہم بلڈر حضرات زکوٰۃ سےمتعلق شرعی راہ نمائی چاہتے ہیں کہ ہمیں فلیٹ اور دیگر تعمیراتی کاموں کےسلسلے میں مختلف مراحل میں رقوم کی لین دین کی نوبت پیش آتی  رہتی ہے،جس میں کچھ رقم ہماری ہوتی ہے،کچھ خریداروں سے قسط کی صورت میں وصول ہوتی ہے،اور کچھ رقم بینک سے قرض بھی ہوتی ہے،پھر ہم زمین  خریدتے ہیں،اور اس کی تعمیر کےلیےسیمنٹ،بجری،لوہا اور دیگر تعمیراتی سامان خریدتے ہیں،پھر فلیٹ کے بننے کا سلسلہ شروع ہوجاتاہے،کچھ فلیٹ تو سال کےاندر تیار ہوجاتے ہیں،جب کہ کچھ دو سال میں،اور کچھ کی  تعمیر میں تین،چار،پانچ سال بھی لگ جاتے ہیں،قسطوں کی رقم کےآنےکاسلسلہ بھی شروع ہوجاتاہے،کچھ رقم تعمیراتی سامان اور اس سلسلے میں صرف ہوجاتی ہے،جب کہ کچھ رقم بچ جاتی ہے،اور نامکمل فلیٹ نہ ہی بکتے ہیں اور نہ ہی اس کی قیمت کاتعین ہوتاہے،اور تعمیر وقتِ مقررہ سے سال دو سال بھی بڑھ سکتی ہے،اور یہ قسطوں کی وصولی پر موقوف ہے،رقوم کی تفصیل مثلاًیہ ہےکہ 20 کروڑروپے کمپنی کے ہیں،20کروڑ بینک سے لیے،اور 30کروڑ خریداروں کی بکنگ سے وصول ہوتی ہے، پورےپروجیکٹ میں70کروڑ کی لاگت صرف ہوگی،اور تعمیر مکمل ہونےکےبعد یہ پروجیکٹ ایک سوکروڑ (ایک ارب روپے)کا ہوجائےگا،اور یہ پروجیکٹ برائے تجارت بنایا جاتاہے۔

اس صورتِ حال کےپیش نظر اس پروجیکٹ کی زکوٰۃ کب دیں؟کس طرح اور کتنی دیں؟فلیٹ بکنگ کی آمد پرجورقم فلیٹ کےعوض ملتی رہےگی،کیا اس رقم پر بھی زکوٰۃ ہے یا صرف بک شدہ فلیٹ کی رقم پر؟

ہماری شرعی راہ نمائی فرمائیں،اور آسان طریقہ بتائیں کہ زکوٰۃ بھی ادا ہوجائے اور اس میں کمی بیشی بھی نہ ہو۔

وضاحت: تمام بلڈنگ کی بکنگ نہیں ہوئی، بلکہ کچھ باقی ہے، جب کہ بلڈنگ کا مکمل سٹرکچر (یعنی خاکہ و ڈھانچہ) کھڑا ہوچکا ہے۔

جواب

واضح رہے کہ فلیٹوں کی تعمیر کےلیے زمینوں کی  خریداری اور  اس کی تعمیر  کے دوران بلڈر حضرات  تعمیر شدہ فلیٹوں کی خریداری کے خواہش مند حضرات سے جو  معاملہ "بکنگ"کے نام پر کرتے ہیں وہ معاملہ شریعت کی رو سےبیع  نہیں، بلکہ  وعدۂ بیع کہلاتا ہے، کیوں کہ اس وقت اصل مبیع یعنی تعمیر شدہ فلیٹ موجود نہیں ہوتا ، بلکہ  بعد از تعمیر  اسے  خریدنے  کا وعدہ ہوتا ہے، اور جب بک کرائے گئے فلیٹ کی تعمیر شروع ہوجاتی ہے (یعنی اس کا سٹرکچر کھڑا ہوجاتاہے) تو اس وقت حقیقی بیع منعقد ہوجاتی ہے، نیز بکنگ کی مد میں وصول ہونے والی رقوم ان بلڈر حضرات کے پاس ابتداءً امانت اور انتہاءً قرض ہوتی ہے، اور جب خریداری کا معاملہ مکمل ہوجائے،  تب بلڈر رقم کا مالک بن جاتا ہے، اور فلیٹ بک کرانے والے کی ملکیت ہوجاتا  ہے۔

لہٰذا صورتِ  مسئولہ  میں جب بلڈنگ کا سٹرکچر (یعنی خاکا  و  ڈھانچا)  کھڑا  ہوچکا ہے تو  سائل  کے لیے زکوٰۃ   کا حساب کرنے کا طریقہ یہ  کہ سائل اپنے زکوٰۃ کا سال مکمل ہونے والے دن اپنے پاس موجود نقدی، لوگوں سے جو رقم بک  شدہ فلیٹوں کی بکنگ کے عوض وصول کرنی ہے وہ  رقوم، اور جتنے فلیٹ اور دکانیں جو کہ اب تک بک نہیں ہوئیں اور کمپنی کی ملکیت میں ہیں جنہیں آئندہ بیچا جائے گا، ان غیر بک شدہ فلیٹ اور دکانوں کی موجودہ مالیت کو اور پیچھے ذکر کی گئیں تمام رقوم کو جمع کرے، پھر اس مجموعہ میں سے بینک کا قرض اور دیگر واجب الادا  دیون،  قرض (مثلاً: سیمنٹ، بجری، سریا وغیرہ جو کہ ادھار پر خریدی گئی ان سب) کو منہا کرے، پھر اس جمع و منہا کرنے کے عمل کے بعد جو بھی نتیجہ آئے اس کے مطابق چالیسواں حصہ (یعنی ڈھائی فیصد)زکوٰۃ کے طور پر ادا کرے۔

نیز مستقبل کے اخراجات جو کہ بلڈنگ پر آئندہ سال کیے جائیں گے،  وہ منہا نہیں ہوں گے۔

ملتقی الأبحر میں ہے:

"و شرط وجوبها العقل و البلوغ و الإسلام و الحرية و ملك نصاب حولي فارغ عن الدين و حاجته الأصلية نام و لو تقديرًا ملكًا تامًّا".

(کتاب الزکوۃ، ص:285، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)

فتاویٰ عالمگیری  میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق و الذهب، كذا في الهداية."

( کتاب الزکوۃ، الباب الثالث فی زکوۃ الذہب و الفضۃ و العروض، الفصل الثالث في زکوۃ العروض، ج:1، ص:179، ط: رشیدية)

و فيه أيضًا:

"(و منها الفراغ عن الدين) قال أصحابنا - رحمهم الله تعالى -: كل دين له مطالب من جهة العباد يمنع وجوب الزكاة سواء كان الدين للعباد كالقرض و ثمن البيع و ضمان المتلفات و أرش الجراحة، و سواء كان الدين من النقود أو المكيل أو الموزون أو الثياب أو الحيوان وجب بخلع أو صلح عن دم عمد، و هو حال أو مؤجل أو لله  تعالى كدين الزكاة فإن كان زكاة سائمة يمنع وجوب الزكاة بلا خلاف بين أصحابنا - رحمهم الله تعالى - سواء كان ذلك في العين بأن كان العين قائمًا أو في الذمة باستهلاك النصاب، و إن كان زكاة الأثمان و زكاة عروض التجارة ففيها خلاف بين أصحابنا فعند أبي حنيفة و محمد - رحمهما الله تعالى - الجواب فيه كالجواب في السوائم."

( کتاب الزکوۃ، الباب الأول، ج:1، ص:173، ط: رشیدية)

فتح القدیر میں ہے:

"(و من كان عليه دين يحيط بماله فلا زكاة عليه) و قال الشافعي: تجب لتحقق السبب و هو ملك نصاب تام. و لنا أنه مشغول بحاجته الأصلية فاعتبر معدومًا كالماء المستحق بالعطش و ثياب البذلة و المهنة (و إن كان ماله أكثر من دينه زكى الفاضل إذا بلغ نصابًا) لفراغه عن الحاجة الأصلية و المراد به دين له مطالب من جهة العباد."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:160، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509101321

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں