بلی کی نال ( آنت کی مانند وہ نلی جو ایک طرف آنول (جنین کے لپٹنے کی جھلی) سے اور دوسری جانب بچے کی ناف سے جڑی رہتی ہے اور جسے ولادت کے بعد بچے کی ناف سے کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے) کو لوگ خرید کر خیروبرکت کےلئے دکانوں میں رکھتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں بلی کی نال( آنت کی مانند وہ نلی جو ایک طرف آنول (جینین کے لپٹنے کی جھلی) سے اور دوسری جانب بچے کی ناف سے جڑی رہتی ہے اور جسے ولادت کے بعد بچے کی ناف سے کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے) کو دکان میں خیر وبرکت کے لیے رکھنے کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے،اس قسم کے توہمات سے پرہیز لازم ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
’’مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنْ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَفْسِكَ‘‘(النساء 79)
’’(اے انسان) تجھ کو جو کوئی خوش حالی پیش آتی ہے وہ محض اللہ کی جانب سے ہے اور جو کوئی بد حالی پیش آوے وہ تیرے ہی سبب سے ہے۔‘‘ (بیان القرآن)
تفسیر کبیر میں ہے:
"ما أصابك من حسنة يفيد العموم في جميع الحسنات، ثم حكم على كلها بأنها من الله، فيلزم من هاتين المقدمتين، أعني أن الإيمان حسنة، وكل حسنة من الله، القطع بأن الإيمان من الله."
(سورة النساء، 147/10، ط:دار إحياء التراث العربي)
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"قال النووي: البدعة كل شيء عمل على غير مثال سبق، وفي الشرع إحداث ما لم يكن في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وقوله: كل بدعة ضلالة."
(كتاب الإيمان، باب الاعتصام بالكتاب والسنة، 223/1، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604102032
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن