بلی کپڑوں کو لگ گئی، تو کیا اس کپڑوں میں نماز ہوجاتی ہے؟
صورتِ مسئولہ میں بلی کے جسم پر اگر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو، تو اس کا جسم خشک ہو یا پسینہ یا پاک پانی کی وجہ سے تر ہو، تو اس کا جسم کپڑوں سے لگ جانے کی صورت میں کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے، اور ایسے کپڑوں میں نماز ہوجائے گی۔
’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں ہے:
’’سوال:..... میری ایک دوست ہے، جو میرے گھر آئی تھی، بلی سے بھاگ کر کرسی پر پیر اٹھا کر بیٹھ گئی، میں نے پوچھا کیوں؟ تو کہنے لگی کہ بلی اگر کپڑوں سے لگ جائے تو کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں، اور نماز نہیں ہوتی، جب کہ میری دادی نے کہا کہ بلی اگر سوکھی ہو، تو نماز ہوسکتی ہے، ہاں! اگر بلی گیلی ہو، تو کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں، آپ اسلام کی روشنی میں اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟
جواب:..... بلی کے ساتھ کپڑے لگنے سے ناپاک نہیں ہوتے، خواہ بلی سوکھی ہو یا گیلی ہو، بشرطیکہ اس کے بدن پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو۔‘‘
(نجاست اور پاکی کے مسائل، ج: 3، ص: 178، ط: مکتبہ لدھیانوی)
مرقاة المفاتيح شرح مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:
"سبب تلقيبه بذلك ما رواه ابن عبد البر عنه أنه قال: كنت أحمل يوما هرة في كمي، فرآني رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: (ما هذه؟) : فقلت: هرة، فقال: (يا أبا هريرة) . وفي رواية ابن إسحاق: وجدت هرة، وحملتها في كمي، فقيل لي: ما هذه؟ فقلت: هرة، فقيل لي: أنت أبو هريرة. ورجح بعضهم الأول، وقيل: وكان يلعب بها وهو صغير، وقيل: كان يحسن إليها، وقيل: المكني له بذلك والده."
(كتاب الإيمان، ج:١، ص:٦٩، ط: دار الفكر، بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144610100459
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن