اگر ایک شخص کسی میڈیکل بلنگ کمپنی میں کام کرتا ہے وہ بلنگ کمپنی کسی ڈاکٹر یا ہسپتال کو سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس آنے والے مریضوں کا علاج انشورنس کمپنی کے ذریعے کروایا جاتا ہے . اب میڈیکل بلنگ کمپنی کے ساتھ کام کرنے والا شخص ڈائریکٹ انشورنس کمپنی میں کام نہیں کرتا لیکن جس ہسپتال یا ڈاکٹر کے ساتھ وہ کام کرتا ہے اس ہسپتال اور ڈاکٹر کے توسط سے انشورنس کمپنی سے روابط قائم کرتا ہے اور دی گئی سروس جو ہسپتال یا ڈاکٹر نے مریض کو دی اس مد میں ہونے والے اخراجات انشورنس کمپنی سے حاصل کرتا ہے اس رقم سے اس کو معاوضہ یا کمیشن دیا جاتا ہے ۔ شریعیت اسلامیہ کی رو سے اس رزق کی نوعیت اس شخص کے لیے کیا ہوگی. کیا یہ رزق حلال ہے یا حرام؟
ہماری معلومات کے مطابق میڈکل بلنگ کمپنی مریض اور انشورنس کمپنی کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرتی ہے، یعنی ڈاکٹر کی تجاویز (دوا اور ٹیسٹ وغیرہ) انشورنس کمپنی کی طرف منتقل کرتی ہے اور انشورنس کمپنی سے رقم وصول کر کے ڈاکٹر یا ہسپتال کو پہنچاتی ہے، گویا اس کمپنی کا کام انشورنس کی سہولت کاری ہے ؛ لہذا اس کمپنی میں نوکری کرنے کی وجہ سے ملازم بھی انشورنس کے حرام معاملے کا سہولت کار اور معاون بن جائے گا اور تنخواہ اس حرام میں معاونت کا عوض ہوگی جو کہ ملازم کے لیے حلال نہیں ہوگی؛لھذا مذکور ہ کمپنی میں نوکری کرنا از روئے شرع جائز نہیں ہے۔
أحكام القرآن للجصاص میں ہے:
"وقوله تعالى: {وتعاونوا على البر والتقوى} يقتضي ظاهره إيجاب التعاون على كل ما كان طاعة لله تعالى; لأن البر هو طاعات الله. وقوله تعالى: {ولا تعاونوا على الأثم والعدوان} نهي عن معاونة غيرنا على معاصي الله تعالى."
(سورہ مائدہ ج نمبر ۳ ص نمبر ۲۹۶،دار احیاء التراث العربی)
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:
"عن جابر - رضي الله عنه - قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا وموكله وكاتبه وشاهديه، وقال: (هم سواء) » رواه مسلم.
(وكاتبه وشاهديه) : قال النووي: فيه تصريح بتحريم كتابة المترابيين والشهادة عليهما وبتحريم الإعانة على الباطل (وقال) ، أي: النبي صلى الله عليه وسلم (هم سواء) ، أي: في أصل الإثم، وإن كانوا مختلفين في قدره."
(کتاب البیوع، ،ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۹۲۵،دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607102595
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن