1- اگر ایک بندے کوالرجی ہے یا دوسری بیماری ہے تو کیا یہی بیماری دوسرے بندے کو لگ سکتی ہے ؟
2- ایک بندہ جو کہ ہاتھ میں کوئی دھاگہ یا دوسری چیز کلائی میں باندھتا ہو فیشن وغیرہ کے لیے ،تو ایسا کرنا گناہ ہے یا نہیں؟
3- کیا کوئی بندہ ہر نماز کے بعد اللہ کے حضور نماز کے بغیر نفلی سجدہ کرسکتا ہے اور اس میں اللہ سے کچھ مانگنا ہو یا کوئی دعا پڑھنی ہو تو یہ جائز ہے ؟
4- فجر یا عصر کے نماز کے بعد سجدہ کرسکتے ہیں ؟
1-واضح رہے کہ احکم الحاکمین ذات نے اپنی حکمتِ بالغہ کے تحت کائناتِ عالم میں بہت سی چیزوں کو اسباب کے ساتھ جوڑا ہے، تاہم اس کے مؤثر ہونے کو اللہ رب العزت نے اپنے حکم کا پابند بنایا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے امت کو اس حقیقت سے روشناس کرانے کے لیے دو مختلف موقعوں پر ایسا عمل کیا جس سے یہ دونوں باتیں واضح ہوجاتی ہیں۔
ایک مرتبہ نبی کریمﷺکے پاس ایک مجذوم (جذام کی بیماری والا شخص، جس بیماری کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ پھیلتی ہے) آیا تو آپﷺ نے اس کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیمار آدمی سے یقینی طور پر بیماری لگ جانے کا اعتقاد درست نہیں ہے۔
دوسرے موقع پر ایک مجذوم آپﷺ سے بیعت ہونے کے لیے آیا تو نبی کریمﷺ نے اسے اپنے پاس آنے کی اجازت مرحمت نہیں فرمائی، اس سے ہاتھ ملائے بغیر ہی اسے دور سے ہی پیغام بھجوادیا کہ ہم نے تمہیں بیعت کرلیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ احتیاط کے درجہ میں بیماری کے ظاہری اسباب سے بچناجائز ہے۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ ظاہری سبب کے طور پر پھیلنے والی بیماری کی جگہ یا شخص سے بچنا جائز ہے، تاہم یہ عقیدہ نہ ہو کہ ایسی جگہ میں جانے سے یا رہنے سے یا ایسے شخص کے قرب سے بیماری کا لگنا یقینی ہے۔
نیز اگر کسی علاقے میں کوئی وبا (مثلاً طاعون وغیرہ) پھیل جائے تو اس حوالے سے کتبِ حدیث میں روایات منقول ہیں کہ جس جگہ طاعون کا مرض پھیل جائے وہاں جانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا، اور جہاں آدمی موجود ہو، اور وہاں طاعون کا مرض پھیل جائے تو ڈر کر وہاں سے بھاگنے سے منع فرمایا۔
2- ہاتھ میں دھاگہ باندھنا یاکڑا پہننا اگر کسی نفع کی امید یا نقصان سے بچاؤ کی نیت وعقیدہ سے ہو تو اس عقیدہ کے ساتھ ہاتھوں میں دھاگہ یا کڑا کا باندھنا درست نہیں ،اس لیے کہ نفع ونقصان پہنچانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ، اللہ ہی بھلائیاں عطا کرتے ہیں اور مصیبتوں سے بچاتے ہیں ،بلکہ بعض فقہاء نے تو اسے افعالِ کفر میں شمار کیا ہے ، زمانہ جاہلیت میں لوگ گردن میں یا ہاتھ میں اپنے عقیدہ کے مطابق خود کو مصیبت سے بچانے کے لیے دھاگے باندھا کرتے تھے ، ان دھاگوں کو 'تمیمہ ' کہا جاتا ہے ، فقہاء نے لکھا ہے کہ یہ ممنوع ہے، اور بعض فقہاء نے تو اسے کفریہ کاموں میں شمار کیا ہے، اسی طرح ہاتھوں میں کڑا پہننا بعض غیر مسلموں کا مذہبی شعار ہے، اور غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے،اسی طرح یہ مقام خواتین کے لیے زینت اختیار کرنے کا ہے نہ کہ مرد کے لیے، لہذا کلائی پر دھاگہ وغیرہ باندھنے میں خواتین کی مشابہت بھی ہے اور اس کی بھی شرعیت میں سخت ممانعت وارد ہوئی ہے ،اور اگر یہ عمل فیشن اور آرائش کے طور پر ہو تب بھی درست نہیں۔
3-بلاشبہ سجدہ کی حالت میں انسان اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور اس حالت میں دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہے، اس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی دعا قبول فرماتا ہے،البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روایات سجدہ میں دعا کرنے سے متعلق ملتی ہیں وہ نفلی نمازوں کے سجدوں میں دعا مانگنے سے متعلق ہیں، الگ سے سجدہ کرکے دعا مانگنے کا کسی حدیث سے صراحتاً ثبوت نہیں ملتا،لہٰذا نماز کے باہر الگ سےسجدہ کرکے اس میں دعا مانگنے کی عادت نہیں بنانی چاہیے،البتہ کبھی کبھار علیحدہ سے سجدہ کرکے دعا مانگی جا سکتی ہے، سجدے میں دعا کرنی ہو تو نفلی نمازوں (جیسےصلوٰۃ الحاجۃ وغیرہ)کے سجدوں میں عربی زبان میں دعائیں مانگنی چاہییں،غیر عربی زبان میں دعا مانگنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے نیز ہاتھوں کو سجدہ کی حالت میں جس طرح رکھتے ہیں ( یعنی سر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان اس طرح رکھے کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھے کانوں کی لو کے برابر آجائیں ، اور ہاتھوں کی انگلیاں ملاکر قبلہ رخ ہوں ) اسی طرح رکھیں گے ۔
فرض نماز کے فوراًبعد سجدہ کرکے اس میں دعا مانگناکراہت سے خالی نہیں ،اسی طرح سنتوں سے فارغ ہونے کے بعد بھی علیحدہ سے سجدہ کرنا مکروہ ہے، کیونکہ ناواقف لوگ اس سجدہ کو یا تو نماز کا جز یا فرض واجب سمجھ سکتے ہیں ،چنانچہ فرض اور سنت نماز کےبعدسجدہ کرکےاس میں دعامانگنےسےاحتراز کرناچاہیے۔
4-نماز فجر کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے تک اور عصر کے بعد سورج کے زرد ہونے تک سجدہ تلاوت کی ادائیگی درست ہے۔البتہ عین طلوع اور عین غروب کے اوقات میں سجدہ تلاوت جائز نہیں، الا یہ کہ اسی وقت آیتِ سجدہ کی تلاوت کی تو اس سجدہ تلاوت کی ادائیگی کی اجازت ہوگی،نیز نماز فجر اور عصر کے بعد فرائض کی قضادرست ہے ،نوافل پڑھنامکروہ ہے،لہذا فرائض کی قضا کے دوران اگر سجدہ سہو لازم ہوجائے تو جس طرح قضا نماز درست ہے سجدہ سہو بھی درست ہے۔
بخاری شریف میں ہے:
"حدثنا عبد العزيز بن عبد الله قال حدثني مالك عن محمد بن المنكدر وعن أبي النضر مولى عمر بن عبيد الله عن عامر بن سعد بن أبي وقاص عن أبيه أنه سمعه يسأل أسامة بن زيد ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطاعون؟ فقال أسامة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الطاعون رجس أرسل على طائفة من بني إسرائيل أو على من كان قبلكم فإذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه. قال أبو النضر: لا يخرجكم إلا فرارا منه".
(صحیح البخاري، باب من انتظر حتی تدفن ،ج: 4، ص: 175، ط: دارطوق النجاة)
عون المعبود میں ہے:
"وفي رواية أخرى: فلاتدخلوا عليه، أي يحرم عليكم ذلك؛ لأن الإقدام عليه جراءة على خطر وإيقاع للنفس في التهلكة والشرع ناه عن ذلك، قال تعالى: {ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة}. (وإذا وقع ) أي الطاعون ( وأنتم ) أي والحال أنتم ( بها ) بذلك الأرض ( فرارًا ) أي بقصد الفرار ( منه )، فإن ذلك حرام؛ لأنه فرار من القدر وهو لاينفع، والثبات تسليم لما لم يسبق منه اختيار فيه فإن لم يقصد فرارًا بل خرج لنحو حاجة لم يحرم قاله المناوي في التيسير".
(عون المعبود ، باب الخروج من الطاعون ، ج:8، ص: 255، ط: دار الحدیث القاھرۃ)
وفیہ ایضا
"الطاعون بوزن فاعول من الطعن عدلوا به عن أصله ووضعوه دالا على الموت العام كالوباء ويقال طعن فهو مطعون وطعين إذا أصابه الطاعون وإذا أصابه الطعن بالرمح فهو مطعون هذا كلام الجوهري. وقال الخليل: الطاعون الوباء".
(عون المعبود ، باب الخروج من الطاعون ، ج:8، ص: 255، ط: دار الحدیث القاھرۃ)
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :
"اہلِ مسلکِ ثانی نے یہ کہا کہ عدوی کی نفی سے مطلقاً نفی کرنا مقصود نہیں؛ کیوں کہ اس کا مشاہدہ ہے ۔۔۔ مگر اہلِ مسلکِ ثانی نے اس کو خلافِ ظاہر سمجھ کر یہ کہا کہ مطلق عدوی کی نفی اس سے مقصود نہیں، بلکہ اس عدوی کی نفی مقصود ہے جس کے قائل اہلِ جاہلیت تھے اور جس کےمعتقدینِ سائنس اب بھی قائل ہیں، یعنی بعض امراض میں خاصیت طبعی لازم ہے کہ ضرور متعدی ہوتے ہیں، تخلف کبھی ہوتا ہی نہیں، سو اس کی نفی فرمائی گئی ہے ۔۔۔الخ"
(امداد الفتاوی، ج: 4، ص، 287، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس، ج:6، ص:363، ط: سعید)
سنن ابی داؤد میں ہے:
"عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم فهو منهم.»."
(کتاب اللباس ، باب فی لبس الشہرة، ج:4، ص:78، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي)
صحیح البخاری میں ہے:
"عن ابن عباس رضي الله عنهما قال:لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال."
(كتاب اللباس، باب المتشبہون بالنساء، و المتشبہات بالرجال،ج:5، ص: 207 ط: دار الکتب العلمیۃ)
رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:
"وسجدة الشكر: مستحبة به يفتى لكنها تكره بعد الصلاة لأن الجهلة يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه فمكروه
(قوله لكنها تكره بعد الصلاة) الضمير للسجدة مطلقا. قال في شرح المنية آخر الكتاب عن شرح القدوري للزاهدي: أما بغير سبب فليس بقربة ولا مكروه، وما يفعل عقيب الصلاة فمكروه لأن الجهال يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه فمكروه انتهى.
وحاصله أن ما ليس لها سبب لا تكره ما لم يؤد فعلها إلى اعتقاد الجهلة سنيتها كالتي يفعلها بعض الناس بعد الصلاة ورأيت من يواظب عليها بعد صلاة الوتر ويذكر أن لها أصلا وسندا فذكرت له ما هنا فتركها ثم قال في شرح المنية: وأما ما ذكر في المضمرات أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لفاطمة - رضي الله تعالى عنها -: «ما من مؤمن ولا مؤمنة يسجد سجدتين» إلى آخر ما ذكر ". فحديث موضوع باطل لا أصل له.
(قوله فمكروه) الظاهر أنها تحريمية لأنه يدخل في الدين ما ليس منه ط. "
(كتاب الصلاة، باب سجود التلاوة، ج:2، ص:119-120، ط: دار الفكر)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
’’اس طرح کا سجدہ سجدۂ مناجات کہلاتا ہے، اس کے بارے میں بعض علماءِ دین کا قول ہے کہ مکروہ ہے ۔ مشکاۃ شریف کی شرح اشعۃ اللمعات میں ہے:
سوم: سجدۂ مناجات بعد از نماز وظاہرکلام اکثر علماء آنست کہ مکروہ است۔
(اشعۃ للمعات ج ۱ص ۶۲۰) (شرح سفر السعادۃ۔ ص ۱۵۹)
لہذا اس کی عادت بنا لینا غلط ہے، دعا اورمناجات کا مسنون طریقہ جس کی مسنونیت میں کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے، اس کو ترک کر کے اختلافی طریقہ اختیار کرنا مناسب نہیں ہے ، سجدہ میں دعا کرنے کی جو روایت ہے ۔ اس کے متعلق شرح سفر السعادۃ میں ہے:
وآنکہ در آحادیث آمدہ است کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم در سجدہ اطالت میفر مودود عابسیار میکرد مراد بدں سجدۂ صلاتیہ است۔"
(کتاب الصلاۃ، ج:1،ص :159، ط: زکریا بک ڈپو،دیوبند)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وكره) تحريماً، وكل ما لايجوز مكروه (صلاة) مطلقاً (ولو) قضاءً أو واجبةً أو نفلاً أو (على جنازة وسجدة تلاوة وسهو) لا شكر قنية (مع شروق) ... (وسجدة تلاوة، وصلاة جنازة تليت) الآية (في كامل وحضرت) الجنازة (قبل) لوجوبه كاملا فلا يتأدى ناقصا، فلو وجبتا فيها لم يكره فعلهما: أي تحريما. وفي التحفة: الأفضل أن لاتؤخر الجنازة.
(قوله: فلو وجبتا فيها) أي بأن تليت الآية في تلك الأوقات أو حضرت فيها الجنازة.
(قوله: أو تحريماً) أفاد ثبوت الكراهة التنزيهية.
(قوله: وفي التحفة إلخ) هو كالاستدراك على مفهوم قوله أي تحريما، فإنه إذا كان الأفضل عدم التأخير في الجنازة فلا كراهة أصلا، وما في التحفة أقره في البحر والنهر والفتح والمعراج حضرت " وقال في شرح المنية: والفرق بينها وبين سجدة التلاوة ظاهر؛ لأن تعجيل فيها مطلوب مطلقا إلا لمانع، وحضورها في وقت مباح مانع من الصلاة عليها في وقت مكروه، بخلاف حضورها في وقت مكروه وبخلاف سجدة التلاوة؛ لأن التعجيل لا يستحب فيها مطلقا اهـ أي بل يستحب في وقت مباح فقط فثبتت كراهة التنزيه في سجدة التلاوة دون صلاة الجنازة".
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين رد المحتار، کتاب الصلوۃ،ج:1، ص: 370، 374، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ثلاث ساعات لاتجوز فيها المكتوبة ولا صلاة الجنازة ولا سجدة التلاوة إذا طلعت الشمس حتى ترتفع وعند الانتصاف إلى أن تزول وعند احمرارها إلى أن يغيب إلا عصر يومه ذلك فإنه يجوز أداؤه عند الغروب. هكذا في فتاوى قاضي خان قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل ما دام الإنسان يقدر على النظر إلى قرص الشمس فهي في الطلوع.
كذا في الخلاصة. هذا إذا وجبت صلاة الجنازة وسجدة التلاوة في وقت مباح وأخرتا إلى هذا الوقت فإنه لا يجوز قطعا أما لو وجبتا في هذا الوقت وأديتا فيه جاز؛ لأنها أديت ناقصة كما وجبت. كذا في السراج الوهاج وهكذا في الكافي والتبيين لكن الأفضل في سجدة التلاوة تأخيرها وفي صلاة الجنازة التأخير مكروه. هكذا في التبيين ولايجوز فيها قضاء الفرائض
والواجبات الفائتة عن أوقاتها كالوتر. هكذا في المستصفى والكافي".
"تسعة أوقات يكره فيها النوافل وما في معناها لا الفرائض. هكذا في النهاية والكفاية فيجوز فيها قضاء الفائتة وصلاة الجنازة وسجدة التلاوة. كذا في فتاوى قاضي خان.
منها ما بعد طلوع الفجر قبل صلاة الفجر.... ومنها ما بعد صلاة الفجر قبل طلوع الشمس. هكذا في النهاية والكفاية۔۔۔ ومنها ما بعد صلاة العصر قبل التغير. هكذا في النهاية والكفاية".
(الفتاوى الهندية ، باب السجود التلاوۃ،ج:1، ص: 52، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102572
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن