بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی اگر جماع نہ کرنے دے تو اس کو طلاق دینے کا حکم


سوال

میری شادی کو پندرہ سال بیت چکے ہیں ، اس عرصے میں میری بیوی نے کبھی خوش دلی سے میرے ازدواجی حقوق ادا نہیں کیے ،بلکہ ایک لاش کی طرح لیٹ جاتی ہے کہ جو کرنا ہے کر لو اور جاؤ، سمجھانے پر کہتی ہے دوسری شادی کر لو،  مجھے یہ سب نہیں پسند، کبھی گرمی کا بہانہ ،کبھی سردی کا، کبھی تھکاوٹ کا،  یا یہ کہ میں نہاؤں گی تو سب کو پتہ چل جائے گا ، اور اکثر تین تین چار چار مہینے مجھے ٹالتی رہتی ہے،  ہم سوتے بھی الگ الگ کمروں میں ہیں کہ اسے میرا چھونا، دیکھنا بھی پسند نہیں،  صرف مباشرت  کی اجازت دیتی ہے۔

کیا میں اسے طلاق دے سکتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ بیوی کی ذمہ شوہر کے ہر جائز اور مباح امر کی بقدر طاقت اطاعت واجب ہے، انہی کاموں میں سے  ایک یہ ہے کہ جب شوہر  اپنی طرف یعنی جماع کی طرف بلائے تو اس کی اطاعت کرے۔ احادیث میں   شوہر کے بلانے پر بیوی کے نہ جانے پر سخت وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ مشکوٰۃ المصابیح میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:  "جب کسی مرد نےاپنی بیوی کو جماع کی طرف بلایا اور اس نے انکار کیا اور شوہر نے رات غصے میں گزاری تو فرشتے صبح تک اس بیوی پر لعنت بھیجتے ہیں" ۔
لہذا کسی مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ  وہ اپنے شوہر کو بغیر کسی شرعی عذر کے قریب آنے نہ دے۔ 
مذکورہ صورت حال میں مرد کو چاہیے کہ بیوی کو حکمت کے ساتھ سمجھائے، اور بیوی کو کمرہ، غسل خانہ وغیرہ کی ایسی سہولت فراہم کرے کہ جس میں کسی اور کا عمل دخل نہ ہو، اگر سائل کی جانب سے اتنی سہولت دیے جانے کے باوجود بیوی  قریب نہ آنے دے  جب کہ اسے کوئی شرعی عذر بھی نہ ہو تو اسے بیوی کی مناسب تادیب (سرزنش) کا بھی حق ہے اور اگر سائل کے پاس استطاعت ہو تو دوسرا نکاح بھی کر سکتا ہے، اور اگر دوسرے نکاح کی گنجائش نہ ہو اور موجودہ بیوی کسی بھی طرح سائل کے حقوق ادا کرنے پر رضامند نہ ہو تو سائل کو طلاق کا حق حاصل ہوگا۔

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح.»"

(باب عشرة النساء، ج:2، ص:280، ط:قدیمی)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"(لعنتها الملائكة) : لأنها كانت مأمورة إلى طاعة زوجها في غير معصية قيل: والحيض ليس بعذر في الامتناع لأن له حقا في الاستمتاع بما فوق الإزار عند الجمهور."

(باب عشرۃ النساء، ج:5، ص:2121، ط:دار الفکر) 

فتاوی شامی میں ہے:

"و حقّه عليها أن تطيعه في كل مباح يأمرها به.

(قوله: في كل مباح) ظاهره أنه عند الأمر به منه يكون واجبا عليها كأمر السلطان الرعية به." 

(باب القسم، ج:3، ص:208، ط:قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102579

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں