بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا گھر پراکیلے ڈرنے کی وجہ سے شوہرکے لیے مسجد کی جماعت چھوڑنے کا حکم


سوال

صورتِ  مسئلہ یہ ہے کہ میں فجر کی نماز کے لیےمسجد جاتا ہوں تو میری بیوی گھر میں اکیلی ہوجاتی ہےاور وہ اکیلے بہت زیادہ ڈرتی ہے،  تو بیوی کا کہنا ہے کہ تم گھر میں نماز ادا کرو،  تو کیا اس صورت میں میرا گھر میں نماز پڑھنا درست ہوگا یا نہیں ؟

جواب

مردوں کے لیے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنتِ مؤکدہ (حکماً واجب) ہے، جس کی پابندی کرنا  واجب ہے، اور پنج وقتہ نمازوں کی جماعت کے لیے مسجد مخصوص کی گئی ہے، لہٰذا جو شخص کسی شرعی عذر کے بغیر گھر پر نماز پڑھنے کا معمول بنالے وہ تارکِ سنت اور گناہ گار ہے، البتہ اگر کوئی شرعی عذر (بیماری، سفر ، خوفِ دشمن یا شدید بارش  وغیرہ) ہو تو مسجد کی جماعت ترک کرنے پر  گناہ نہیں ملے گا؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں  اگر فجر کے  وقت کسی اور ضروری کام کے لیے نکلنے سے بیوی کو ڈر نہیں لگتا یا رات کو دیر سے  گھر لوٹنے پر بھی وہ نہیں ڈرتی ، تو  نماز  پڑھنے کے لیےمسجد جانا ضروری ہوگا، بیوی کے ڈر کا اعتبار نہیں، بصورتِ دیگر بیوی کے  اکیلے گھر پر ڈرے رہنے    کی وجہ سے اگر سائل گھر پرفجر کی نماز ادا کرے تو گناہ گار نہ ہوگا  ، البتہ مسجدکی جماعت کے ثواب سے محروم رہے گا، لیکن اِس کا معمول بنانا درست نہیں ، بلکہ اِس کا متبادل انتظام کرنا چاہیے۔ 

الجوهرة النيرة  میں ہے:

"(قوله: والجماعة سنة مؤكدة) أي: قريبة من الواجب. وفي التحفة واجبة لقوله تعالى {واركعوا مع الراكعين} [البقرة: 43]، وهذا يدل على وجوبها، وإنما قلنا إنها سنة لقوله - عليه السلام - «الجماعة من سنن الهدى لايتخلف عنها إلا منافق» وقال - عليه السلام - «ما من ثلاثة في قرية لا يؤذن فيهم ولا تقام فيهم الصلاة إلا قد استحوذ عليهم الشيطان، عليك بالجماعة فإنما يأخذ الذئب الفارة» استحوذ أي: استولى عليهم وتمكن منهم، وإذا ثبت أنها سنة مؤكدة فإنها تسقط في حال العذر".

(كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة ج: 1،  ص: 59، ط: المطبعة الخيرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتسقط الجماعة بالأعذار حتى لا تجب على المريض والمقعد والزمن ومقطوع اليد والرجل من خلاف ومقطوع الرجل والمفلوج الذي لا يستطيع المشي والشيخ الكبير العاجز والأعمى عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - والصحيح أنها تسقط بالمطر والطين والبرد الشديد والظلمة الشديدة. كذا في التبيين، وتسقط بالريح في الليلة المظلمة وأما بالنهار فليست الريح عذرا وكذا إذا كان يدافع الأخبثين أو أحدهما أو كان إذا خرج يخاف أن يحبسه غريمه في الدين أو يريد سفرا وأقيمت الصلاة فيخشى أن تفوته القافلة أو كان قيما لمريض أو يخاف ضياع ماله".

(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، الفصل الأول في الجماعة ج: 4، ص: 83، ط: رشيديه)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144604102490

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں