بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے لیے بغیر قبضہ کے ہبہ کرنے اور سوتیلی پوتی کے لیے وصیت کا حکم


سوال

میرے پھوپھی زاد بھائی کا 5 ماہ پہلے انتقال ہوا، وہ میری پھوپھی کے سوتیلے بیٹے تھے، ان کے ترکہ میں ذاتی 6 لاکھ روپے، اور دو دکانیں ہیں، انہوں نے ان کے بارے میں یہ کہا تھا کہ "یہ سب میری بیوی کا ہے  اور میں ان کو اپنی زندگی میں ہی اس کا مالک بناتا ہوں" لیکن زندگی میں ان کو اس کا قبضہ نہیں دیا تھا، ان کے ورثاء میں ایک بیوہ، بہن اور ایک چچا ہیں۔ تو اب اس جائیداد کی تقسیم کس طرح ہوگی؟

میری پھوپھی کا ایک پگڑی کا گھر تھا جو میرے مذکورہ پھوپھی زاد بھائی نے اپنے نام کروایا تھا، میری پھوپھی کی زبانی وصیت تھی کہ یہ میری سوتیلی پوتی (پھوپھی زاد بھائی کی لے پالک بیٹی) کو دیا جائے، پھوپھی کے ورثاء میں صرف ایک بھائی ہے جو میرے والد ہیں، اب اس کو کس طرح تقسیم کیا جائے۔  

جواب

واضح رہے کہ گھر جائیداد وغیرہ کسی کےمحض نام کر دینے سے یا صرف کہنے سےشرعاً وہ اس کا مالک نہیں بنتا  جب تک اس کو کامل قبضہ اور اس میں تصرف کا اختیار نہ دیا گیا ہو ، اسی طرح کسی رقم کے ہبہ (گفٹ) کرنے کے لیے بھی قبضہ دینا ضروری ہے اس کے بغیر ہبہ مکمل  نہیں ہوتا، مذکورہ تفصیل کی رو سے  صورت مسئولہ میں پھوپھی زاد بھائی کے  یہ کہنے کی وجہ سے کہ "یہ سب میری بیوی کا ہے اور اس کو اپنی زندگی میں ہی اس کا مالک بناتا ہوں" شرعاً اس کی بیوہ مذکورہ رقم اور دکانوں کی مالک نہیں بنی تھی کیونکہ مالکانہ قبضہ اور تصرف نہیں دیا تھا، لہذا پھوپھی زاد بھائی کے انتقال کے بعد مذکورہ رقم اور دکانیں ان کا ترکہ ہے جس میں مرحوم کے تمام شرعی ورثاء اپنے اپنے شرعی حصے کے اعتبار سے حق دار ہیں ۔

فتح القدیر میں ہے:

 (وتصح بالایجاب والقبول والقبض) ام الایجاب والقبول فانه عقد والعقد ینعقد بالایجاب والقبول والقبض لا بد منه لثبوت الملک ـــــــــــــــــ  ولنا قوله علیه صلی اللہ علیه وسلم لا تجوز الہبه الا مقبوضة

قال العلامه ابن الهمام:

قال صاحب النهایة ای تصح بالایجاب وحدہ فی حق الواھب، وبالایجاب والقبول فی حق الموھوب له  ــــــــــــــــــــــــ ولکن لا یملکه الموھوب له الا بالقبول والقبض

(کتاب الہبة، ص/479، 480، 481 ج/7 ، ط/رشیدیه) 

صورت مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، اس کے بعد اگر ان پر کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کیا جائے،پھر اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی سے اسے نافذکیا جائے، اس کے بعد باقی  جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے4 حصے بناکر مرحوم کی بیوہ کو 1 حصہ، بہن کو 2 حصے اور چچا کو 1 حصہ ملے گا۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت 4 

بیوہبہنچچا
121

یعنی 100 روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو 25 روپے، بہن کو 50 روپے اور چچا کو 25 روپے ملیں گے۔ 

مرحومہ پھوپھی کا  زبانی وصیت کرنا کہ کہ مذکورہ گھر میری سوتیلی پوتی کو دیا جائے شرعاً  اس کے حق میں وصیت کرنا ہے، اور وصیت کا حکم یہ ہے کہ وہ ایک تہائی  مال میں نافذ ہوتی ہےباقی دو تہائی ورثاء میں تقسیم ہوتے ہیں، لہذا اگر مذکورہ گھر کل ترکہ کا ایک تہائی یا اس سے کم ہو تو وصیت ورثاء کی اجازت کے بغیرنافذ ہو جائے گی اورمذکورہ گھر سوتیلی پوتی کا ہوگااور اگر یہ گھر ترکہ کے ایک تہائی سے زائد ہوتو پھر باقی ورثاءیعنی بھائی اگر پورا گھر  دینے پر راضی ہو تو جائز ہوگا ورنہ ایک تہائی تک وصیت نافذ ہوگی، اور باقی  دو تہائی مرحومہ کے بھائی کو ملیں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

(وتجوز بالثلث للأجنبي) عند عدم المانع (وإن لم يجز الوارث ذلك لا الزيادة عليه إلا أن تجيز ورثته بعد موته)

(کتاب الوصایاِ، ص/650، ج/6، ط/سعید)

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144306100559

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں