میری ساس نے میری شادی زبردستی اپنی بیٹی سے اس دھمکی کی بنا پر کروائی کہ اگر یہ شادی نہ کی تو میری بہن جو کہ میری ساس کی بھابی ہے، کو طلاق دے دی جائے گی۔ شادی کے بعد معلوم ہوا کہ لڑکی غیر معمولی طور پر کمزور ہے۔ میں اس لڑکی میں کوئی رغبت نہیں رکھتا۔ اور روز بروز ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا جا رہا ہوں۔ چنانچہ اپنی بیوی کے پاس جانا میرے لئے اذیت کا باعث ہے۔ یہاں تک کہ اس کی موجودگی بھی وحشت کا باعث ہے۔ اس نکاح کی حیثیت کیا ہوگی اور اگر میں اس لڑکی کے ساتھ جسمانی تعلق قائم نہ کرنا چاہوں تو کیا مجھ پر وبال ہوگا؟
واضح رہے کہ نکاح قائم ہونے کے بعد میاں بیوی کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں، جن میں سے ایک حق جسمانی تعلق قائم کرنا ہے، لہذا شوہر کے لیے مطلقاً جسمانی تعلق (جماع) کو بغیر کسی شرعی عذر کے ترک کرنا حلال نہیں ہے، اور ایک دفعہ جماع کرنے کے بعد اگر بیوی دوبارہ مطالبہ کرے تو اس کے مطالبہ کو پورا کرنادیانۃً واجب ہے، نیز مطلقاً جماع کو ترک کردینا مصالح نکاح کے خلاف ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ويسقط حقها بمرة ويجب ديانة أحيانا
(قوله ويسقط حقها بمرة) قال في الفتح: واعلم أن ترك جماعها مطلقا لا يحل له، صرح أصحابنا بأن جماعها أحيانا واجب ديانة، ۔۔۔۔ وفي البدائع: لها أن تطالبه بالوطء لأن حله لها حقها، كما أن حلها له حقه، وإذا طالبته يجب عليه ويجبر عليه في الحكم مرة والزيادة تجب ديانة لا في الحكم عند بعض أصحابنا وعند بعضهم تجب عليه في الحكم."
(كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، ج:3، ص:202، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101750
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن