بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو ماں بہن کہنے کا حکم


سوال

ایک آدمی نے غصے میں اپنے بیٹے کو گھر سے نکالا اور قسم کھائی  کہ اگر میں دوبارہ آپ کے ساتھ ملا اور بیٹھا تو تمہاری ماں میری بہن ہوگی تو اس صورت میں طلاق واقع ہوگی یا صرف گناہ ملے گا ؟

جواب

واضح رہے کہ اپنی بیوی کو ماں ،بہن کہنا شرعاً مکروہ ہے ؛لہذا صورت ِ مسئولہ میں اگر مذکورہ آدمی اپنے بیٹے کے ساتھ ملے گا یا بیٹھے گا تو اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی ؛اس لیے کہ    سوال میں مذکورہ جملہ میں چوں کہ ماں ،بہن سے تشبیہ دینا نہیں پایا جارہا، بلکہ بیوی کو ہی  بہن  کہا ہے، اس لیے ان الفاظ سے نہ ظہار ہوگا اور نہ ہی طلاق، لہٰذا زوجین کے نکاح میں کوئی اثر نہیں پڑے گا، دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے،البتہ آئندہ اس قسم کے الفاظ کہنے سے اجتناب کیا جائے ۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(وإن نوى بأنت علي مثل أمي) ، أو كأمي، وكذا لو حذف علي خانية (برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته) ووقع ما نواه لأنه كناية (وإلا) ينو شيئا، أو حذف الكاف (لغا) وتعين الأدنى أي البر، يعني الكرامة. ويكره قوله أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه.

(قوله: ويكره إلخ) جزم بالكراهة تبعا للبحر والنهر والذي في الفتح: وفي أنت أمي لا يكون مظاهرا، وينبغي أن يكون مكروها، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته يا أخية مكروه. وفيه حديث رواه أبو داود «أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - سمع رجلا يقول لامرأته يا أخية فكره ذلك ونهى عنه» ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقال هو ظهار لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ " يا أخية " استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليس ظهارا حيث لم يبين فيه حكما سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهارا من التصريح بأداة التشبيه شرعا، ومثله أن يقول لها يا بنتي، أو يا أختي ونحوه. اهـ"

(کتاب الطلاق،باب الظہار،ج:3،ص:470،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100628

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں