ایک شخص نے اپنی بیوی کو قرآن پر ہاتھ رکھ کر تین طلاقیں دی ہیں اور بیوی سے کہا کسی کو بتانا نہیں، پھر اس کے بعد ایک سال تک وہ ساتھ رہے، پھر بیوی نے اپنے خاندان میں بتایا کہ اس نے مجھے تین طلاقیں دی ہیں، لیکن شوہر تین طلاقوں کا انکار کر رہا ہے، البتہ دو طلاقوں کو تسلیم کر رہا ہے، اب بیوی کے لیے کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً شوہر نے بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں تو اس سے بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں۔ وہ اپنے شوہرپر حر متِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہےاور نکاح ختم ہو گیا ، اب رجوع کرنا اور دوبارہ ساتھ رہنا جائز نہیں ۔
اگر شوہر تیسری طلاق کا منکر ہے تو اس مسئلہ کے شرعی حل اور فیصلہ کے لیےزوجین کسی مستند مفتی/ عالمِ دین سے رجوع کر کے انہیں اپنا فیصل/ منصف بنائیں، بعد ازاں حسبِ ضابطہ شرعی وہ جو فیصلہ کریں اس کے مطابق عمل کریں۔ اور جب تک فیصلہ نہ ہوجائے دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ رہیں، کسی قسم کا تعلق قائم نہ کریں۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد"۔
(كتاب أدب القاضي، الباب الرابع والعشرون فی التحکیم، ص:397، ج:3، ط:رشیدیه)
مبسوطِ سرخسی میں ہے:
"(قال): وإذا شهد شاهدان على رجل أنه طلق امرأته ثلاثا وجحد الزوج، والمرأة ذلك فرق بينهما؛ لأن المشهود به حرمتها عليه، والحل، والحرمة حق الله تعالى فتقبل الشهادة عليه من غير دعوى كما لو شهدوا بحرمتها عليه، والحل، والحرمة حق الله تعالى فتقبل الشهادة عليه بنسب أو رضاع أو مصاهرة"۔
(کتاب الطلاق، باب الشهادۃ فی الطلاق، ص:145، ج:6، ط:دار المعرفة)
فتاوی شامی میں ہے:
"والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه، والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب
قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله"۔
(کتاب الطلاق، باب صریح الطلاق، ص:251، ج:3، ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100464
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن