بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوہ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے درمیان میراث کی تقسیم


سوال

1۔میرے والد صاحب انتقال ہو گیا ہے،ان کی ترکہ میں جائیداد ہے، والد صاحب  کےورثاء میں بیوہ، دو بیٹے اوردو بیٹیاں  ہیں والد صاحب کے والدین کا پہلے انتقال ہو چکا ہے،ان کے درمیان میراث کیسےتقسیم ہو گی اور ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟

2۔ہمارےوالد صاحب کے مکانوں کا کرایا آتا ہے،کیا اس کرائے میں بھی سب ورثاء کا حق ہے؟ رہنمائی فر مائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ  متقدمہ یعنی اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو  تو کل ترکہ سے  قرضہ ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرکے  باقی کل  منقولہ و غیر منقولہ ترکہ  کو48 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 6حصے مرحوم کی بیوہ کو،14حصے ہرایک بیٹے کو اور 7 حصےمرحوم کی ہر ایک بیٹی کو  ملیں گے۔

تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:

 مرحوم(والد):48/8

بیوہبیٹابیٹابیٹیبیٹی
17
6141477

فیصد کے اعتبار سے تقسیم یوں ہو گی کہ مرحوم کی بیوہ کو12.5فیصد،مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو29.166فیصد اورہر ایک بیٹی کو14.583فیصد ملیں گے۔

2۔ صورتِ مسئولہ میں اگر والد صاحب کے مکانوں کو کرائے پر دیا ہو اور  ورثاء نے باہمی رضامندی سے کرایہ پر ان کو باقی رکھا ہوتو اب اس کے کرائے میں تمام ورثاء اپنے اپنے  مندرجہ بالاشرعی حصص کے تناسب سے شریک ہوں گے۔

شرح المجلہ میں ہے:

’’الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم". 

( الْمَادَّةُ :1073، 4/14،  الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ط: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603101503

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں