1۔میرے والد صاحب انتقال ہو گیا ہے،ان کی ترکہ میں جائیداد ہے، والد صاحب کےورثاء میں بیوہ، دو بیٹے اوردو بیٹیاں ہیں والد صاحب کے والدین کا پہلے انتقال ہو چکا ہے،ان کے درمیان میراث کیسےتقسیم ہو گی اور ہر ایک کو کتنا حصہ ملے گا؟
2۔ہمارےوالد صاحب کے مکانوں کا کرایا آتا ہے،کیا اس کرائے میں بھی سب ورثاء کا حق ہے؟ رہنمائی فر مائیں!
صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو تو کل ترکہ سے قرضہ ادا کرنے کے بعد ، اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرکے باقی کل منقولہ و غیر منقولہ ترکہ کو48 حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے 6حصے مرحوم کی بیوہ کو،14حصے ہرایک بیٹے کو اور 7 حصےمرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔
تقسیم کی صورت درج ذیل ہے:
مرحوم(والد):48/8
بیوہ | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی |
1 | 7 | |||
6 | 14 | 14 | 7 | 7 |
فیصد کے اعتبار سے تقسیم یوں ہو گی کہ مرحوم کی بیوہ کو12.5فیصد،مرحوم کے ہر ایک بیٹے کو29.166فیصد اورہر ایک بیٹی کو14.583فیصد ملیں گے۔
2۔ صورتِ مسئولہ میں اگر والد صاحب کے مکانوں کو کرائے پر دیا ہو اور ورثاء نے باہمی رضامندی سے کرایہ پر ان کو باقی رکھا ہوتو اب اس کے کرائے میں تمام ورثاء اپنے اپنے مندرجہ بالاشرعی حصص کے تناسب سے شریک ہوں گے۔
شرح المجلہ میں ہے:
’’الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم".
( الْمَادَّةُ :1073، 4/14، الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ط: رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101503
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن