بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوہ، پانچ بیٹے اور تین بیٹیوں میں میراث کی تقسیم


سوال

1۔میرےوالد محترم کا کافی عرصہ قبل انتقال ہوگیا تھا،والد صاحب نےترکہ میں ایک بلڈنگ چھوڑی ہے،جس کو اب ہم سب بھائی،بہنوں کی رضامندی سے فروخت کرکے تقسیم کرنا چاہتے ہيں،والد صاحب کے  ورثاء میں  ایک بیوہ ،پانچ بیٹے اورتین بیٹیاں ہیں،بیٹیاں چار تھیں،ایک بیٹی کا انتقال والد صاحب کی زندگی میں ہوا، تین بیٹیاں حیات ہے،ان میں سے ایک بیٹی والد صاحب کی پہلی بیوی سے ہے،پہلے بیوی کا انتقال والدصاحب کی زندگی میں ہوا،اب ان ورثاء میں میراث کی تقسیم کیسے ہوگی؟والد صاحب نے کچھ کچھ رقم پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کو اپنی زندگی میں دی تھی،جوہم نے استعمال بھی کی،رقم دیتے وقت کسی بھی چیز کی وضاحت نہیں کی یعنی  یہ  رقم لے لو،آپ کو بعد میں میراث میں کچھ نہیں ملے گا،اس طرح والد صاحب نے کچھ نہیں کہا۔

2۔والد صاحب  کی جو بلڈنگ ہے،اس میں والدہ اور تین بھائی رہائش پذیر ہیں،دکانوں کا کرایہ والدہ کے پاس  آتا ہے،جو کہ والد صاحب کی زندگی میں  ہی سے آتا تھا،والد صاحب دکانوں کا کرایہ لا کر والدہ کو ان کے خرچہ کے لیے دے دیتے تھے، والد کے انتقال کے بعد متفقہ طور سے یہ طے ہوا تھا، کہ کرایہ والدہ کو ہی دیا جائے گا،تا کہ ان کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو،لیکن اس میں ایک بہن جو والد صاحب کی پہلی بیوی سے ہے،ان سے اجازت نہیں لی،ہمارا خیال ہیں ان کو بھی اعتراض نہیں ہوگایا اس کی اجازت ضروری ہے،ہم اس بہن (جو والد صاحب کی پہلی بیوی سے ہے) خرچ کے نام پر کچھ رقم دیتے ہیں،بہن سے کہا تھا،یہ قرض کے طور  پر دے رہے ہے، اگر والد صاحب کی میراث میں آپ کا حصہ بنتا ہے،اس سے کاٹ دیا جائے گا۔

3۔والدہ کے پاس کچھ زیوارات ہیں،والدہ نے اپنے پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں  اور اپنے درمیان برابر تقسیم کردیا ہے،کیا ایسا کرنا صحیح تھا یا نہیں؟ یا والدہ کا حصہ زیادہ رکھنا چاہیے تھا؟

4۔ کرایہ سب  میں کس تناسب سے تقسیم ہوگا؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں والد مرحوم کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے،کہ والد مرحوم کے تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد ،اگر والد مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض ہو اس کو کل مال سے ادا کرنے کے بعد،اگر مرحوم نےکوئی جائز وصیت کی  ہو، اس کو ایک تہائی سے ادا کرنے کے بعد باقی کل منقولہ وغیر منقولہ ترکہ کو 104  حصوں میں تقسیم کرکے مرحوم کی  بیوہ کو  13 حصے، مرحوم کے ہر بیٹے کو 14 حصے، مرحوم کی ہر زندہ بیٹی کو 7 حصے ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: 104/8

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
17
131414141414777

یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحوم کی بیوہ کو12.5 فیصد، مرحوم کے ہر بیٹے کو 13.46 فیصد، مرحوم کی ہر زندہ بیٹی کو6.73 فیصد ملیں گے۔

والد مرحوم نے اپنی زندگی میں پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں کواپنی زندگی میں جو رقم دی تھی اور کوئی شرط نہیں رکھی،تو مذکورہ جن بیٹوں اور بیٹیوں کو دی تھی، ان کی ملکیت بن چکی ہے، والد مرحوم کی میراث میں تقسیم نہیں ہوگی۔

2۔ والد مرحوم کی میراث(بلڈنگ اور دکانوں) میں تمام ورثاء اپنے شرعی حصوں کے مطابق حصہ دار بن چکے تھے،اسی طرح دکانوں سے ملنے والا کرایہ میں بھی تمام ورثاء شرعی حصوں کے مطابق حصہ دار بن چکے تھے،جس بہن سے کرایہ  والدہ کو دینےکے بارے میں اجازت نہیں لی تھی، وہ بہن اپنے شرعی حصے کے مطابق کرایہ میں حق دار ہے،اس کا کرایہ میں  شرعی حصہ بنتا ہے، اس کو واپس کرنا ضروری ہے،بھائیوں نے بہن کو خرچہ دیتے وقت اس بات کی صراحت کی  تھی،کہ خرچہ  قرض ہے،لہذا جتنا خرچہ اب تک قرض کے نام پر دے چکے ہیں،اتنی  رقم اس بہن کے حصے سے  کاٹ دیا جائے گا۔

3۔والدہ اپنی زیوارات کی خود ما لک ہے،اس میں جس طرح چاہے  تصرف کرے،جتنا اپنے لیے رکھنا چاہے،جنتا اولاد میں تقسیم کرنا چاہے،لیکن اولاد میں برابری کرنا ضروری ہے،والدہ نے سب اولاد کو برابر تقسیم کردیا،اس میں اپنا حصہ بھی رکھا،والد ہ کا ایسا کرنا صحیح ہے۔

4۔جس حساب سے بلڈنگ کی تقسیم ہوگی،اسی حساب سے دکانوں کا کرایہ بھی تقسیم ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط."

(کتاب الھبة، الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز، ج: 4، ص: 377، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل."

(كتاب الهبة، 690/5، ط: سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وكذا في العطايا إن ‌لم ‌يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم."

(کتاب الھبہ 696/5, ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

"يكره تفضيل بعض الأولاد على البعض في الهبة حالة الصحة إلا لزيادة فضل له في الدين وإن وهب ماله كله الواحد جاز."

(كتاب الهبة، هبة الأب لطفلة، 288/7، ط: دار الكتاب الإسلامي)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"يجب على المقترض أن يرد مثل المال الذي اقترضه إن كان المال مثلياً بالاتفاق."

(‌‌القسم الثالث: العقود أو التصرفات المدنية المالية، ‌‌الفصل الثاني: القرض، ‌‌ما يجب رده على المقترض، ط: دار الفكر)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الأحکام میں ہے:

"إذا آجر أحد الشريكين حصته من شريكه سنة وسكنها المستأجر سنتين، فلا تلزم أجرة للسنة الثانية. وحكم الأجنبي الذي يخلف الشريك فهو كالشريك أيضا ‌ويستفاد ‌من ‌المثال أن ذلك خاص باستعمال الشريك بالذات، ولا دخل لإيجاره من آخر؛ لأن الشريك إذا لم يستعمل المال المشترك مستقلا بنفسه وأجره كله من آخر وأخذ أجرته لزمه رد أجرة شريكه إليه. مثلا لو آجر أحد الشركاء الحمام المشترك بين ثلاثة ولكل منهم ثلثه من آخر وأخذ أجرته لزمه أن يعطي لشريكيه ثلثي الأجرة وسنفصل هذه المسألة وتوضح في المادة (1077) لكن إيجار أحد الشركاء المال المشترك على هذا الوجه أو إعارته غير جائزة ديانة. إذ التصرف في ملك الغير بلا إذن حرام، ولا يمنع قضاء إذ الإنسان لا يمنع من التصرف فيما بيده إذا لم ينازعه فيه أحد (التنقيح، رد المحتار، علي أفندي)."

(الكتاب الأول البيوع، الباب الثامن، ‌‌الفصل الأول، (المادة 597) لا يلزم ضمان المنفعة في مال استعمل بتأويل ملك، 691/1، ط: دارالجیل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144602100420

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں