ایک خاتون کےشوہرنےخاتون کی سگی بھانجی (بہن کی بیٹی)سےناجائزتعلقات(جنسي تعلقات) بنارکھےہے،اورمختلف اسفارمیں اپنےساتھ لےکرآتاجاتاہے،اوربرملاکہتاہے کہ میں اس سے شادی کروں گا۔
اس صورت حال میں مذکورہ خاتون(لڑکی کی خالہ)کےلئے شرعاًکیاحکم ہے؟یعنی آیایہ اپنےشوہرپرحرام ہوگی یانہیں؟
واضح رہے کہ بیوی کی بھانجی محرمات ابدیہ میں سے نہیں ہے،بلکہ وقتی طورپردونوں کوایک ساتھ نکاح میں جمع کرناحرام ہے،یعنی کسی عورت کی موجودگی میں اس کی بھانجی سے نکاح کرناشرعاًجائزنہیں ہے،باوجودکہ بھانجی سےناجائزتعلق شرعاًحرا م ہے،مگراس ناجائزتعلق سے خالہ جوکہ بیوی ہے وہ شرعاًحرام نہیں ہوگی بلکہ دونوں میان بیوی کانکاح بدستوربرقرارہے،تاہم بیوی کی بھانجی سے ناجائزتعلق قائم کرنااوراسےاپنےہمراں لےکرادھرادھرجاناناجائزاورحرام ہے،دونوں کوچاہيےکہ صدق دل سے توبہ واستغفارکریں اوراس ناجائزتعلق کوختم کریں۔
اورچوں کہ سائلہ کےشوہرنےسائلہ کی بھانجی سےہم بستری کی ہے،لہذاجب تک مذکورہ بھانجی ایک حیض اگرحمل نہ ہو،اورحمل کی صورت میں وضع حمل تک اپنی بیوی یعنی سائلہ سے ہم بستری کرناجائزنہیں ہے۔
مبسوط للسرخسی میں ہے:
"ثم حرمة المصاهرة بهذه الأسباب تتعدى إلى آبائه، وإن علوا وأبنائه، وإن سفلوا من قبل الرجال والنساء جميعا، وكذلك تتعدى إلى جداتها وإلى نوافلها لما بينا أن الأجداد والجدات بمنزلة الآباء والأمهات، والنوافل بمنزلة الأولاد فيما تنبني عليه الحرمة."
(كتاب النكاح، ج:4، ص:204، ط:دار المعرفة)
الدرالمختارمیں ہے:
"وفي الخلاصة: وطئ أخت امرأته لا تحرم عليه امرأته،
(قوله: وفي الخلاصة إلخ) هذا محترز التقييد بالأصول والفروع وقوله: لا يحرم أي لا تثبت حرمة المصاهرة، فالمعنى: لا تحرم حرمة مؤبدة، وإلا فتحرم إلى انقضاء عدة الموطوءة لو بشبهة قال في البحر: لو وطئ أخت امرأة بشبهة تحرم امرأته ما لم تنقض عدة ذات الشبهة، وفي الدراية عن الكامل لو زنى بإحدى الأختين لا يقرب الأخرى حتى تحيض الأخرى حيضةا."
(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج:3، ص:34، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144604100385
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن