اگرکوئی لڑکی اپنی مرضی سےملازمت کرے، اس طورپرکہ اس کے شوہرکی طرف سےملازمت کرنےمیں کوئی پابندی نہ ہو، اوراس ملازمت سےجوپیسےکمائےان پیسوں میں سےایک حصہ اپنے آنے جانے کے سفر خرچ میں استعمال کرے، اورایک حصہ اپنی ذات پرخرچ کرے، اورایک حصہ اپنی مرضی سےگھر میں خرچ کرے(یعنی تعمیری کام کےعلاوہ کھانےپینےکی اشیاء اوردیگرضروریات میں خرچ کیا)اورشوہراوراس کےمابین اس بات کاکوئی ایگریمنٹ نہ ہوکہ وہ بطورِقرض یاواپسی کےمطالبہ پرخرچ کررہی ہے، توکیاان پیسوں کامطالبہ عدالتی یک طرفہ خلع لینےکےبعدکرسکتی ہے؟
صورت مسئولہ میں جب عورت نےاپنی ذاتی رقم میں سےایک حصہ اپنی مرضی سےگھریلو ضروریات میں خرچ کیا ہے، قرض دینےکی صراحت نہیں کی تھی، تواب عورت کواس رقم کی واپسی کےمطالبےکاحق نہیں ہے، نیزعدالتی یک طرفہ خلع کےجوازودعدم جوازسےمتعلق تفصیلات بتاکرمعلوم کیاجاسکتاہے۔
الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:
"التبرع بذل المكلف مالا أو منفعة لغيره في الحال أو المآل بلا عوض بقصد البر والمعروف غالبا."
(تبرع، ج:10، ص:65، ط:دارالسلاسل)
تنقیح الفتاویٰ الحامدیہ میں ہے:
"المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره."
(كتاب المداينات،ج:2،ص؛226 ، ط:دار المعرفة)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144604100939
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن