بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1446ھ 26 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا اپنے شوہر اور والدہ کے درمیان ناجائز تعلقات کا دعویٰ کرکے دوسرے کے ساتھ بھاگ کر نکاح کرنا


سوال

میرا بھائی ایک لڑکی کو بھگا کر لایا ہے،وہ لڑکی شادی شدہ  ہے،اس لڑکی کی شادی کو د س سال  ہوچکے ہيں،میرے بھائی سے تین سال فون پر رابطہ رہا ہے، اس دوران اس لڑکی نے میرے بھائی کو بتایا کہ اس کی والدہ كے اس کی شادی سے پہلے اس کے شوہر کے ساتھ ناجائز تعلقات(زنا) تھے،لڑکی کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی گواہ ہے،لیکن اس وقت لڑکی نابالغ تھی اور لڑکی نے کہا کہ اس بات کے دو گواہ اور بھی ہیں ایک مرد اور ایک عورت،وہ دونوں  میرے بھائی کے سامنے گواہی دے رہے ہیں،لیکن کسی اور کے سامنے مثلاً لڑکی اور لڑکے کے خاندان کے سامنے گواہی دینے کے لیے تیار نہیں ہے،اس الزام کی بناء پر میرے بھائی نے فتویٰ بھی  لیا کہ اس لڑکی کا نکاح نہیں ہوا،لیکن اس لڑکی کا شوہر اس بات سے انکاری ہےاور کہتا ہے کہ میری اپنی ساس کے ساتھ کوئی تعلقات نہیں تھے،اس دوران وہ لڑکی اپنے والدین کے گھر رہ رہی تھی،لڑکی کے گھر والے چاہ رہے تھےکہ یہ اپنے شوہر کے پاس واپس چلی جائے،گھر والے دباؤ ڈال رہے تھے،میرے بھائی کو معلوم ہوا،لڑکی کے گھر والے اس  پر واپس جانے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں،تو میرا بھائی اس فتویٰ کو بنیاد بنا کر اس لڑکی کو بھگا لایااور اس سے نکاح کرلیا اور عدالت جاکر پہلے شوہر سے خلع حاصل کی،عدالت نے شوہر کو بلایا، نہ آنے پر خلع کی  ڈگری جاری کی،اب سوال یہ ہے:

1)لڑکی کا اپنے شوہر اور ماں پر الزام سے اس لڑکی کا نکاح برقرار رہتا ہے یا نہیں؟

2) کیا یہ عدالتی خلع صحیح ہے ؟اورمیرے بھائی کا اس لڑکی سے نکاح ہوا یا نہیں؟

3)اگر یہ نکاح حرام ہے،تو کیا ہم اپنے بھائی سے کسی قسم کا تعلق رکھ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ  کسی عورت کے ساتھ زنا کرنے یا اس کو شہوت کے ساتھ بغیر حائل کے چھونے سے اس کی اصول(والدہ،نانی)فروع(بیٹی،پوتی) زانی یا شہوت کے ساتھ چھونے والے پر حرام ہوجاتی ہے،دوم یہ کہ حرمت مصاہرت ثابت ہونے کے لیے ضروری ہے کہ  اس عورت کےشوہر  اس دعویٰ کی تصدیق کرے یا پھر  دعویٰ کرنے والی عورت دوشرعی گواہوں سے دعویٰ حرمت مصاہرت کو ثابت کرے،بغیر تصدیق شوہر یا بغیر شرعی شہادات کے محض دعویٰ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

1)صورتِ مسئولہ میں  اگر عورت کا دعویٰ ہے کہ  اس کے شوہرکے عورت کی والدہ کے  ساتھ ناجائز تعلقات تھے،تو اگر عورت کا والد اگر حیات ہے اور وہ اس دعویٰ کی تصدیق کرتا ہے یا پھر اس پر دو شرعی گواہاں گواہی دیں کہ واقعی  اس شخص نے مذکورہ عورت کی والدہ کو شہوت سے ہاتھ لگایا یا بوس کنار کیا ہے وغیرہ تو پھر اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوگی اس سےوہ اپنے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو  گئی،البتہ بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنے کے لیے ضروری ہے کہ شوہر اس کو زبانی طلاق یا اس جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے چھوڑ دے،اس کے بعد بیوی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے،اگر دعویٰ حرمت مصاہرت شرعی گواہوں سے ثابت نہیں كرسکتی اور عورت کا والد بھی تصدیق نہیں کرتا ہو یا والد حیات نہ ہو اور شوہر بیوی کی بات کا منکر ہے، توصرف بیوی کااپنے شوہر کا والدہ کے ساتھ ناجائز تعلقات(زنا) کا دعویٰ  کرنےسے وہ اپنے شوہر کی نکاح سے نہیں نکل سکتی،بیوی کا صرف اپنے دعویٰ بلا دلیل کو بنیاد بنا کر شوہر کے نکاح سے انکار کرنا اور دوسرے لڑکے کے ساتھ بھاگنا اور شادی کرنا ناجائز ، حرام اور زنا کے حکم میں ہے،دونوں پر لازم ہے، فی الفور ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں اور اپنے عمل پر توبہ واستغفار کریں۔ اگر بیوی اپنے دعویٰ پر گواہ پیش کرے یا شوہر بیوی کی بات کی تصدیق کرے،توصرف اس سے بھی بیوی کا دوسری جگہ نکاح کرنا صحیح نہیں ہوگا،بلکہ شوہر کا طلاق یا اس جیسے الفاظ کے ذریعے اس کو نکاح سے نکالنا ضروری ہے،اس کے بعد بیوی عدت گزار کر کسی دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

 لڑکی کو اس کے شوہر نے طلاق نہ دی ہو تو صرف اپنے  دعویٰ کو بنیاد بنا کر بھاگ کر سائل کے بھائی کےساتھ نکاح کرنا ناجائز اور حرام ہے،سائل  کے بھائی اور اس لڑکی کے درمیان نکاح نہیں ہوا، ان کا ساتھ رہنا جائز نہیں،بلکہ میاں بیوی کے تعلقات بدکاری میں شمار ہوں گے۔

2) بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر یک طرفہ خلع حاصل کرنا شرعاً معتبر نہیں،جب تک شوہر اس خلع کے لیے  راضی  نہ ہو۔

3)سائل کو چاہیے کہ تدبر اور حکمت کے ساتھ اپنے بھائی کو سمجھائے،خاندان کے بڑے حضرات کے ذریعے اس کو اس عمل سے روک دیا جائے اور اگر ان سے نہ ہو،تو  علمائے کرام کے ذریعے اس سے بات کرے شاید وہ سمجھ جائے اور اس عمل سے باز آجائے اگر ان سب باتوں کے باوجود وہ عمل سے باز نہ ہے، جب تک سائل کا بھائی اپنےاس عمل سے باز نہیں آتا،تو غیرت ایمانی کا تقاضہ یہ ہےسائل اور اس کا خاندان اپنے بھائی سے معاشرتی تعلق ختم کرسکتے ہیں۔

قرآن پاک میں  ہے:

"وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن’ رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ."(البقرۃ:282)

ترجمہ:" اوردو شخصوں  کو اپنے مردوں میں سے گواہ (بھی) کرلیا کروپھر اگر وہ دو گواہ مرد ( میسر)نہ ہوں تو  ایک مرد اور دو عورتیں (گواہ بنالی جاویں)۔" (بیان القرآن)

مشكاة المصابيح  میں ہے:

"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه." رواه الترمذي

ترجمہ :" رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا: گواہ پیش کرنا مدعی(دعوی کرنے والے)پر اور قسم کھانا مدعی علیہ (جس پر دعوی کیا گیا ہے)پر ہے۔"

 (‌‌كتاب الإمارة والقضاء، ‌‌الفصل الثاني، 1112/2، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

مرقاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي أيوب الأنصاري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا يحل لرجل أن يهجر) بضم الجيم (أخاه) أي: المسلم، وهو أعم من أخوة القرابة والصحابة. قال الطيبي: وتخصيصه بالذكر إشعار بالعلية، والمراد به أخوة الإسلام، ويفهم منه أنه إن خالف هذه الشريطة وقطع هذه الرابطة جاز هجرانه فوق ثلاثة اهـ. وفيه أنه حينئذ يحب هجرانه...قال الخطابي: رخص للمسلم أن يغضب على أخيه ثلاث ليال لقلته، ولا يجوز فوقها إلا إذا كان الهجران في حق من حقوق الله تعالى، فيجوز فوق ذلك. وفي حاشية السيوطي على الموطأ، قال ابن عبد البر: هذا مخصوص بحديث كعب بن مالك ورفيقيه، حيث أمر صلى الله عليه وسلم أصحابه بهجرهم، يعني زيادة على ثلاث إلى أن بلغ خمسين يوما...فإن هجرة أهل الأهواء والبدع واجبة على مر الأوقات ما لم يظهر منه التوبة والرجوع إلى الحق."

(كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه من التهاجر والتقاطع واتباع العورات، 1346/8۔1347، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز للرجل أن يتزوج زوجة غيره وكذلك المعتدة، كذا في السراج الوهاج."

(كتاب النكاح، الباب الثالث، القسم السادس،280/1، ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده."

(کتاب الطلاق،  باب الخلع، 440/3،  ط :سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق ،فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة، 145/3 ،ط: دارالکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك."

(‌‌كتاب النكاح، 33/3، ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وتقبل الشهادة على الإقرار بالمس والتقبيل بشهوة، كذا في جواهر الأخلاطي. وهل تقبل الشهادة على نفس اللمس والتقبيل بشهوة؟ . المختار أنه تقبل وإليه ذهب فخر الإسلام علي البزدوي، كذا في التجنيس والمزيد...رجل تزوج امرأة على أنها عذراء فلما أراد وقاعها وجدها قد افتضت فقال لها: من افتضك؟ . فقالت: أبوك إن صدقها الزوج؛ بانت منه ولا مهر لها وإن كذبها فهي امرأته، كذا في الظهيرية. لو ادعت المرأة أن مس ابن الزوج إياها كان عن شهوة لم تصدق والقول قول ابن الزوج، كذا في السراج الوهاج. رجل قبل امرأة أبيه بشهوة أو قبل الأب امرأة ابنه بشهوة وهي مكرهة وأنكر الزوج أن يكون بشهوة فالقول قول الزوج، وإن صدقه الزوج وقعت الفرقة ويجب المهر على الزوج."

(كتاب النكاح، الباب الثالث، القسم الثاني، 276/1، ط: دارالفکر)

البحر الرائق میں ہے:

"‌النكاح ‌لا ‌يرتفع بحرمة الرضاع، والمصاهرة بل يفسد حتى لو وطئها قبل التفريق لا يجب عليه الحد اشتبه الأمر أو لم يشتبه نص عليه محمد في الأصل وذكره الشارح في باب اللعان وعلى هذا فقوله: في المعراج فينفسخ النكاح لا يخالفه أن الانفساخ غيره، وفي البزازية وبثبوت حرمة المصاهرة وحرمة الرضاع لا يرتفع بهما النكاح حتى لا تملك المرأة التزوج بزوج آخر إلا بعد المتاركة، وإن مضى عليه سنون اهـ.وقدمنا أنه لا بد في الفاسد من تفريق القاضي أو المتاركة بالقول في المدخولة."

(كتاب الرضاع، 347/3، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں