بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کے لیے زکاۃ لینا


سوال

میرے چار بچے ہیں، جن میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں شامل ہیں۔ میری بڑی بیٹی کی عمر 22 سال ہے، جس کی شادی ہو چکی ہے۔ اس کے سسرال والوں نے شادی کے اخراجات برداشت کیے، اور میں نے جہیز کے طور پر چند جوڑے دیے۔ باقی تین بچے زیرِ تعلیم ہیں، اور ان کی تعلیم کے اخراجات میرے رشتہ دار اٹھا رہے ہیں۔

میں انتہائی غریب ہوں اور بچپن سے یتیم ہوں۔ میرے خاوند بے روزگار ہیں، ان کے پاس نہ کوئی زمین ہے اور نہ ہی کوئی خاندانی اثاثہ۔ وہ محنت مزدوری کرتے ہیں، مگر ان پر 14 لاکھ روپے کا قرضہ ہے۔ ہمارے گھریلو اخراجات بھی رشتہ داروں کی مدد سے پورے ہو رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا میں اپنے شوہر کا قرض اتارنے کے لیے زکوٰۃ اور صدقات لے سکتی ہوں؟

جواب

    اگر کوئی شخص غریب اور ضروت مند ہے  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد اتنی رقم یا سامان نہیں ہے جس کی قیمت نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی)کے برابر  نہیں ہے، اور نہ  ہی  وہ ہاشمی (سید  ،عباسی) ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔ اور رہائش کا گھر ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہے۔

لہذا اگر   آپ کے شوہر  کے پاس اتنی رقم یا سامان موجود نہیں ہے، یا رقم موجود تو ہے، لیکن ان پر اتنا قرض ہے کہ اگر وہ منہا کیا جائے تو  اس کے پاس نصاب سے کم رقم بچے تو آپ کے شوہر کو زکاۃ دی جاسکتی ہے۔   نیز  آپ کا اپنے شوہر کا قرض اتارنے کےزکاۃ اور صدقات لینا جائز ہوگا۔

نوٹ: یہ سوال کا جواب ہے، نہ حقیقت واقعہ کی تصدیق اور نہ ہی سفارش ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

’’ومنها الغارم وهو من لزمه دين ولا يملك نصابا فاضلا عن دينه أو كان له مال على الناس لا يمكنه أخذه كذا في التبيين والدفع إلى من عليه الدين أولى من الدفع إلى الفقير.‘‘

(الباب السابع فى المصارف،ج:1،ص:188ط:دار الکتب)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100926

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں