ایک شخص نے اپنی بیوی کو 2024 میں طلاق دی،نکاح نامہ میں حق مہر کی رقم 50 ہزار بصورت طلائی زیورات معجل لکھا ہوا تھا، جو ادا کر دیا گیاتھا، بعد میں 2023 میں شوہر نے گھریلو مسائل کی وجہ سے وہ زیور لے کر بیوی کی اجازت سے فروخت کر دیا،ضرورت تھی بیوی نے وہ زیور دے دیا ،اس وقت کوئی بات نہیں ہوئی ،نہ قرض کی نہ ہدیہ دینے کی ،بعد میں بیوی نے شوہر سے اس کا مطالبہ بھی کیا ،لیکن وہ شوہر نے ادا نہیں کیا ،اب ان کے مابین طلاق ہو چکی ہے،آیا مطلقہ ان زیورات کے مطالبہ کا حق رکھتی ہے یا نہیں ،اور زیور ہی دیا جائےگا یا 50 ہزار جو اس وقت زیور کی رقم تھی وہ واپس کیا جائے گا۔
صورتِ مسئولہ میں بیوی کا مذکورہ زیور جو شوہر نے بیوی سے لے کر اس کی اجازت سے فروخت کردیا تھا اس کی حیثیت قرض کی ہے، شوہر اپنی بیوی کے اس زیور کا مقروض ہے،مطلقہ کو اس کے مطالبہ کا حق ہے،اور شوہر پر اس کے مثل زیورات یا ان کی موجودہ قیمت ادا کرنا ضروری ہے ،فروخت کرتے وقت یا نکاح کے وقت جو قیمت تھی اس کا اعتبار نہیں ہے۔
المحیط البرہانی میں ہے:
"وأما إذا سكت إنما جعل قرضاً، وإن احتمل الهبة؛ لأنه كما يحتمل الهبة يحتمل القرض والقرض أقل التبرعين؛ لأنه لتمليك المنفعة دون العين على ما عرف، والهبة لتمليك العين والمنفعة جميعاً، فكان الأقل منتفياً، فكان الأقل أولى بالإثبات."
(کتاب الاجارات،ج:7،ص:627،ط:دار الکتب العلمیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100424
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن