بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1446ھ 25 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو دیا ہوا سونا بیوی سے واپس لینا


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے اپنی بیوی کو سونا دیا تھا، حق مہر میں پانچ تولہ سونا دیا تھا اور دو تولہ سونا ،منگنی کرنے کے وقت دیا تھا،اب بیوی نے دوسری جگہ شادی کر لی ہے نہ میں نے طلاق دی ہے اور نہ میں نے خلع دیا ہے۔ اب یہ سونا وغیرہ جو میں نے دیا تھا اس وہ واپس لے سکتا ہوں یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے  جو منگنی میں سونا دیا تھا  اور نکاح کے وقت جو مہر میں سونا دیا تھا وہ سب سائل کی بیوی کی ملکیت ہے، سائل وہ واپس نہیں لے سکتا۔

نیز سائل کی بیوی کا طلاق اور خلع کے بغیر دوسری جگہ شادی کرنا حرام اور ناجائز ہے، سائل کی بیوی کا دوسرے مرد کے ساتھ رہنا شرعا زنا ہے، اسے فورا اپنے اس عمل سے توبہ کرنی چاہیے اور اپنے شوہر یعنی سائل کے پاس واپس آنا چاہیے۔

اگر سائل اپنی بیوی کو خلع دیتا ہے اور خلع مہر  میں دیے گئے سونے اور منگنی میں دیے گئے سونے کے عوض کرتا ہے اور ابیوی اس کے عوض خلع پر راضی ہوجاتی ہے  تو پھر سائل اپنا سونا واپس لے سکتا ہے،خلع کے بعد سائل کی بیوی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وأما حكمها فثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ ."

(کتاب الہبۃ، الباب الاول، ج: ۴، ص :۳۷۴، ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكره) تحريما (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح، وصحح الشمني كراهة الزيادة، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق»

(قوله: ولو منه نشوز أيضا) لأن قوله تعالى - {فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [البقرة: 229]- يدل على الإباحة إذا كان النشوز من الجانبين بعبارة النص، وإذا كان من جانبها فقط بدلالته بالأولى (قوله: وبه يحصل التوفيق) أي بين ما رجحه في الفتح من نفي كراهة أخذ الأكثر وهو رواية الجامع الصغير، وبين ما رجحه الشمني من إثباتها وهو رواية الأصل، فيحمل الأول على نفي التحريمية والثاني على إثبات التنزيهية، وهذا التوفيق مصرح به في الفتح، فإنه ذكر أن المسألة مختلفة بين الصحابة وذكر النصوص من الجانبين ثم حقق ثم قال: وعلى هذا يظهر كون رواية الجامع أوجه، نعم يكون أخذ الزيادة خلاف الأولى، والمنع محمول على الأولى. اهـ. ومشى عليه في البحر أيضا."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج :۳ ، ص :۴۴۵، ط: ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144607102524

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں