میری پہلی شادی 2008ء میں گھر والوں کی رضامندی سے ماموں کی بیٹی سے ہوئی،جن سے چار بیٹیاں ہے،پھر میں نے 2019ء میں گھر والوں سے چھپ کر دوسری شادی کی،دوسری کو میں نے بتایا کہ میں پہلے سے شادی شدہ ہوں،مگر پہلی کو کچھ معلوم نہیں تھا،2024ء میں میری پہلی بیوی کو دوسری شادی کا پتہ چلا،تو وہ بہت غم زدہ ہوئی،اس کی طبیعت خراب ہونے لگی،میرا گھر اور بچے بری طرح متاثر ہورہے ہیں،جس پر میں نے پہلی بیوی سے کہا کہ میں دوسری کو چھوڑ دوں گا، اس طرح چھ مہینے گزر گئے، اس دوران میں نے دوسری بیوی اور اس کے گھر والوں کو بتا دیا کہ میں یہ رشتہ نہیں چلا سکتا،میں خود بھی دوسری بیوی کی طرف راغب نہیں ہوں،کیوں کہ وہ بے اولاد ہے،اس ہی وجہ سے میرا وہاں دل نہیں لگتا،میرے دوسری بیوی سے بھی حالات کشیدہ ہی رہتے ہیں،میرا رجحان پہلی بیوی اور بچوں کی طرف ہے،جب پہلی بیوی نے پوچھنا شروع کیا کہ دوسری کو کب چھوڑو گے،تو مجھے ایسا لگنے لگا کہ شاید میں پہلی کے کہنے سے دوسری کو چھوڑ رہا ہوں،میں دوسری کے ساتھ تعلق صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے نہیں توڑ پارہا ہوں،حالاں کہ نہ میں وقت دیتا ہوں اور اس نے اپنے حق بھی مجھے معاف کیے ہوئے ہیں،میری پہلی بیوی کہتی ہے کہ میں اس عورت سے آپ کے تعلق کو نہیں سہہ سکتی آپ کو کسی ایک کو رکھنا ہوگا،اگر دوسری کو رکھنا ہے،تو مجھے بچوں سمیت الگ کردیں،پھر میرا آپ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا لیکن میں ایسا نہیں کرسکتا کیوں کہ میں پہلی بیوی اور بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتا،اسی طرح میں دوسری کا بھی نہیں ہوسکتا،اس مسئلے کی وجہ سے ہم سات افراد(میں، دو بیویاں اور چار بچے) سب ذہنی دباؤ میں ہے،میرا کاروبار بری طرح متاثر ہورہا ہے اور پہلی بیوی کی صحت(ذہنی اور جسمانی دونوں) بری طرح متاثر ہورہے،اب آپ بتادیں کہ میں کیا کروں میں دوسری کو چھوڑنا چاہتاہوں اللہ اس کا نکاح کسی اور شخص سے کروادے اور میں اس کو چھوڑ کر گناہ گار نہ ہوں اس وجہ سے نہیں چھوڑ پارہا،اگر چھوڑنے پر گناہ گار ہوں،تو کیا کفارہ واجب ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں بیوی کاشوہر سے دوسری بیوی کوطلاق دینےکا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے،احادیث میں اس کے بارے سخت وعیدیں ہیں،شوہر پر بھی لازم ہے کہ ناجائز کاموں میں بیوی کی بات کو نہ مانے،بلکہ شریعت کے حکم کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں بیوی کے ساتھ نان ونفقہ، لباس اور شب باشی میں انصاف کا معاملہ کرے ورنہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گاکہ اس کا ایک طرف جھکا ہوا ہوگا اور شوہر کا صرف اس وجہ سے دوسری بیوی کو طلاق دینا کہ وہ بے اولاد ہے شرعاً جائز نہیں(کیوں کہ اولاد دینا بیوی کے اختیار میں نہیں ہے،بلکہ یہ نعمت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے)،پہلی بیوی کو اس وجہ سے ترجیح دینا کہ اس سے اولاد ہےیا اس کی طرف رجحان زیادہ ہے،یہ بھی بیویوں میں ناانصافی ہے،جو کہ آخرت میں سخت عذاب کا موجب ہے،سائل کا صرف اس وجہ سے دوسری بیوی کو طلاق دینا کہ پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہے،یہ بھی شرعاً جائز نہیں،بلکہ سائل پر لازم ہے ،دونوں کو نکاح میں برقرار رکھتے ہوئے،انصاف کا معاملہ کرے،دونوں کے حقوق کا خیال رکھے،شادی سے پہلے نکاح کا اختیار ہتا ہے،شادی کے بعد ایک کو ترجیح دینا صحیح نہیں۔
پہلی بیوی کا یہ کہنا ’’کہ آپ کا کسی ایک کو رکھنا ہوگا،یا یہ کہنا مجھے بچوں سمیت الگ کردیں ‘‘ جائز نہیں ہے،کیوں کہ جو عورت بغیر کسی شرعی عذر کے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے،تو ایک حدیث حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو عورت اپنے خاوند سے بلا عذر شرعی طلاق مانگے اس پر جنت حرام ہے( جب کہ مقربین وابرار کو جنت کی ہوا موقف میں بھی پہنچے گی تو یہ لوگ محروم ہوں گے)دوسری حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا نافرمانی کرنے والیاں(اپنے خاوندوں کی) اور خلع طلب کرنے والیاں منافق ہیں،ایک حدیث میں ’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی عورت کے لیے اپنی مسلمان بہن (یعنی سوکن) کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے تاکہ اس کا حصہ بھی اس کو مل جائے حالانکہ اس کو وہی ملے گا جو اس کا حصہ ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
" لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثاً وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ (49) أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَاناً وَإِنَاثاً وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيماً إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ."(50)
ترجمہ:"اللہ تعالیٰ ہی کی سلطنت آسمان اور زمین کی وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹا عطا فرماتا ہے۔یا ان کو جمع کردیتا ہے بیٹے اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہے بے اولاد رکھتا ہے، بے شک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔"(بیان القرآن)
صحيح البخاری میں ہے:
"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل لامرأة تسأل طلاق أختها، لتستفرغ صحفتها، فإنما لها ما قدر لها."
ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی عورت کے لیے اپنی مسلمان بہن (یعنی سوکن) کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے تاکہ اس کا حصہ بھی اس کو مل جائے حالانکہ اس کو وہی ملے گا جو اس کا حصہ ہے۔"
(كتاب النكاح، الشروط التي لا تحل في النكاح، 1978/5، ط: دار ابن كثير)
سنن ابی داؤد ميں ہے:
"حدثنا أبو الوليد الطيالسي، نا همام، نا قتادة ، عن النضر بن أنس، عن بشير بن نهيك ، عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من كانت له امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل."
ترجمہ :"رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: جس کی دو بیویاں ہوں،پس وہ ان میں سے ایک جانب جھک جائے ،تو قیامت کے دن اس حال میں آئے گاکہ اس کا ایک طرف جھکا ہوا ہوگا۔"
(كتاب النكاح، باب: في القسم بين النساء، 243/2، ط: المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)
مشكاة المصابیح میں ہے:
"وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا كانت عند الرجل امرأتان فلم يعدل بينهما جاء يوم القيامة وشقه ساقط. رواه الترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي."
ترجمہ: " حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں: جس شخص کے نکاح میں (ایک سے زائد مثلاً) دو بیویاں ہوں اور وہ ان دونوں کے درمیان عدل و برابری نہ کرے تو قیامت کے دن (میدانِ محشر میں) اس طرح سے آئے گا کہ اس کا آدھادھڑ ساقط ہوگا۔"
(كتاب النكاح، باب القسم، الفصل الثاني، 965/2، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
وفيه ايضاً:
"وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: أبغض الحلال إلى الله الطلاق . رواه أبو داود"
ترجمہ:" حضرت ابن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے، کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، اللہ کےہاں حلال چیزوں میں سے مبغوض ترین چیز طلاق ہے۔"(مظاہر حق)
(كتاب النكاح، باب الخلع والطلاق، الفصل الثاني، 978/2، ط: المكتب الإسلامي)
وفيه ايضاً:
"عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة سألت زوجها طلاقا في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة . رواه أحمد والترمذي وأبو داود وابن ماجه والدارمي."
ترجمہ: "حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو عورت اپنے خاوند سے بلا عذر شرعی طلاق مانگے اس پر جنت حرام ہے( جب کہ مقربین وابرار کو جنت کی ہوا موقف میں بھی پہنچے گی تو یہ لوگ محروم ہوں گے)۔"(مظاہر حق)
(كتاب النكاح، باب الخلع والطلاق، الفصل الثاني، 978/2، ط: المكتب الإسلامي)
وفيه ايضاً:
"عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: المنتزعات والمختلعات هن المنافقات . رواه النسائي."
ترجمہ: "حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا نافرمانی کرنے والیاں(اپنے خاوندوں کی) اور خلع طلب کرنے والیاں منافق ہیں۔"( مظاہر حق)
(كتاب النكاح، باب الخلع والطلاق، الفصل الثاني، 980/2، ط: المكتب الإسلامي)
وفيه ايضاً:
"وعن النواس بن سمعان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق. رواه في شرح السنة."
ترجمہ: "حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت لازم نہیں۔"(مظاہر حق)
(كتاب الإمارة والقضاء، الفصل الثاني، 1092/2، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.
(قوله وظاهر الآية أنه فرض) فإن قوله تعالى {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} [النساء: 3] أمر بالاقتصار على الواحدة عند خوف الجور، فيحتمل أنه للوجوب، فيعلم إيجاب العدل عند تعددهن كما قاله في الفتح."
(كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، 201/3۔202، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101491
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن