میری اہلیہ ہے جس کا نان نفقہ ماہانہ خرچ سب کچھ میں برداشت کرتا ہوں ، عید کے لیے کپڑے وغیرہ جو شاپنگ کرنی ہوتی ہے اس کے پیسے میں وقت سے پہلے دیتا ہوں ، لیکن اس کے باوجود نہ وہ میرا خیال رکھتی ہے اور نہ گھر کی صفائی وغیرہ کا خیال رکھتی ہے، تمام سہولیات دینے کے باوجود خود صاف نہیں رہتی ، ناپاکی کی حالت میں رہتی ہے، نا محرم سے تعلقات بنا رکھے ہیں۔ دیگر حقوق میں حد درجہ کوتاہی کرتی ہے، بڑی بدتمیزی کرتی ہے ، میری والدہ کو گالیاں بھی دی ہیں۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ میں یہ سب کچھ برداشت کرنے سے عاجز ہوگیا ہوں، لہذا ایسی عورت کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے، رہنمائی فرمائیں۔
صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ اول تو اپنی بیوی کو سمجھائے ، خود سمجھائے یا پھر بیوی کے والدین کو درمیان میں ڈال کر ان کے ذریعہ سے سمجھائے اور رشتہ باقی رکھنے کی کوشش کرے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ "عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت قبول کرو، اس لیے کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں جو ٹیڑھی ہے اور سب سے زیادہ ٹیڑھا پن اس پسلی میں ہےجو اوپر کی ہےلہذا اگر تم پسلی کو سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو اس کو توڑ دو گے اور اگر پسلی کو اپنے حال پر چھوڑ دو تو وہ ہمیشہ ٹیڑھی کی ٹیڑھی رہے گی ، اس لیے عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت قبول کرو" ۔
ہاں اگر سمجھانے کے باوجود وہ نہیں سمجھتی اور اپنے مزاج میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں لاتی اور نا جائز تعلقات سے بھی توبہ نہیں کرتی تو پھر سائل اس کو طلاق دے کر رشتہ ختم کر سکتا ہے۔اگر طلاق دینے کا ارادہ ہو تو پھر پاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دے۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"3238 - عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «استوصوا بالنساء خيرا فإنهن خلقن من ضلع وإن أعوج شيء في الضلع أعلاه فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل أعوج فاستوصوا بالنساء» . متفق عليه."
(کتاب النکاح، باب عشرۃ النساء، ج نمبر ۵، ص نمبر ۲۱۱۷، دار الفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما الطلاق فإن الأصل فيه الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] أي لا تطلبوا الفراق، وعليه حديث «أبغض الحلال إلى الله الطلاق» قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اهـ وإذا وجدت الحاجة المذكورة أبيح وعليها يحمل ما وقع منه صلى الله عليه وسلم ومن أصحابه وغيرهم من الأئمة صونا لهم عن العبث والإيذاء بلا سبب."
(کتاب الطلاق، ج نمبر ۳، ص نمبر ۲۲۸، ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101856
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن