عورت کا حق مہر کتنا ادا کرنا شریعت میں ضروری ہے ؟
حق مہر کہ علاؤہ شرائط و ضوابط کی کیا اہمیت ہے؟ مثلاً ماہوار پیسے دینا یا استطاعت سے زیادہ لڑکے سے مہر میں سونا لکھوانا ؟
مہر کی کم سے کم مقدار۱۰ درہم کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت ہے ۔ اور۱۰ درہم کا وزن۲ تولہ ساڑھے سات ماشہ ہے، اور موجودہ وزن کے مطابق اُس کی مقدار ۳۰ گرام۶۱۸ ملی گرام ہوتی ہے ۔ چاندی کی موجودہ قیمت (3298 روپے تولہ ) کے حساب سے دس درھم کی قیمت آٹھ ہزار سات سو سولہ (8716 ) روپے بنے گی، مہر کی زیادہ سے زیادہ کوئی مقدار متعین نہیں ہے۔
مہرِ مثل عورت کا حق ہے، یعنی اس لڑکی کے باپ کے خاندان کی وہ لڑکیاں جو مال، جمال، دین، عمر، عقل، زمانہ، شہر، باکرہ یا ثیبہ وغیرہ ہونے میں اس کے برابر ہوں، ان کا جتنا مہر تھا اس کا بھی اتنا مہر ہونا چاہیے، لیکن شریعت نے فریقین کو اختیار دیا ہے کہ باہمی رضامندی سے مہرِ مثل سے کم یا زیادہ مہر مقرر کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ وہ دس درہم سے کم نہ ہو، اس کو ”مہرِ مسمی“ کہتے ہیں اور نکاح کے وقت فریقین جو مہر باہمی رضامندی سے طے کریں اسی کی ادائیگی شوہر پر لازم ہوگی۔
استطاعت سے بہت زیادہ یا دکھلاوے کے لیے بہت زیادہ مہر مقرر کرنا شرعاًسخت ناپسندیدہ ہے،اگر لڑکا زیادہ مہر ادا نہ کر سکے تو لوگوں کا لحاظ کیے بغیر صاف صاف کہہ دینا چاہیے کہ میں اتنا مہر ادا نہیں کر سکتا لیکن جب چاہتے یانا چاہتے ہوئے جتنی مقدار پر رضامندی کا اظہار کر دیاتو ہر حال میں اس کی ادائیگی کرنا شوہر پر لازم ہے،مزید یہ کہ شوہرکے لیے مستحب ہے اور یہ اس کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے کہ واجب نفقہ کے علاوہ بھی حسبِ حیثیت کچھ رقم جیب خرچ کے لیے بیوی کو دیتا رہے، تاہم واجب نفقہ کے علاوہ جیب خرچ دینا شوہر پر لازم نہیں ہے،اگر گنجائش ہو تو تبرعاً دل جوئی کے لیےدے دینا چاہیے اور اگر استطاعت نہ ہواور واجب نفقہ کی مکمل ادائیگی ہورہی ہو تو نہ دینے میں بھی حرج نہیں ہے
مشكاة المصابيح میں ہے :
"عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي".
(کتاب النکاح، باب الصداق، الفصل الثاني، ج : 2، ص : 285، ط : رحمانیة)
ترجمہ :
"حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ خبردار ! تم عورتوں کے بھاری مہر نہ باندھو ۔ اگر یہ چیز دنیا میں بزرگی کا سبب اور اللہ کے ہاں تقویٰ کا ذریعہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار تھے اور جہاں تک میں جانتا ہوں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نکاح اور اپنی بیٹیوں کے نکاح بارہ اوقیہ سے زائد ( مہر ) پر نہیں کیے۔ یہ احمد ترمذی ابو داؤد نسائی، ابن ماجہ اور دارمی نے نقل کیا ہے۔"(از مظاہرِ حق)
فتاوی شامی میں ہے:
"والواجب بالعقد إنما هو مهر المثل، ولذا قالوا إنه الموجب الأصلي في باب النكاح وأما المسمى، فإنما قام مقامه للتراضي به."
(کتاب النکاح، باب المہر، ج : 3، ص : 100، ط : سعید)
وفيه ايضا :
"(وتجب) العشرة (إن سماها أو دونها و) يجب (الأكثر منها إن سمى) الأكثر ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما)....(قوله ويجب الأكثر) أي بالغا ما بلغ فالتقدير بالعشرة لمنع النقصان (قوله ويتأكد) أي الواجب من العشرة لو الأكثر وأفاد أن المهر وجب بنفس العقد لكن مع احتمال سقوطه بردتها أو تقبيلها ابنه أو تنصفه بطلاقها قبل الدخول، وإنما يتأكد لزوم تمامه بالوطء ونحوه ظهر أن ما في الدرر من أن قوله عند وطء متعلق بالوجوب غير مسلم كما أفاده في الشرنبلالية: قال في البدائع: وإذا تأكد المهر بما ذكر لا يسقط بعد ذلك، وإن كانت الفرقة من قبلها لأن البدل بعد تأكده لا يحتمل السقوط إلا بالإبراء كالثمن إذا تأكد بقبض المبيع".
(کتاب النکاح، باب المهر، ج : 3، ص : 102،ط : سعید)
النتف فی الفتاوى میں ہے :
"واما المهر فانه لا نهاية لاكثره".
(کتاب النکاح، باب المهر، ج : 1، ص : 295، ط : مؤسسة الرسالة بيروت)
حاشیۃ بدائع الصنائع میں ہے :
"اتفق العلماء قاطبة على أن المهر ليس له نهاية كبرى ولا حد محدود لوقف عنده واختلفوا في نهايةالصغرى ".
(کتاب النکاح، فصل في أقل المَهْرِ، ج : 3، ص : 487، ط : دار الکتب العلمیة)
فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے :
"سوال (1372):
فی زماننا شادی میں بہت زیادہ چالیس ہزار مہر مقرر ہوتا ہے حالانکہ گھر میں فاقہ کی نوبت ہوتی ہے مگر کم معیوب سمجھا جاتا ہے ایسا نکاح درست ہے یا کیا ؟
(الجواب ) مہر کا زیادہ کرنا اچھا نہیں سمجھا گیا اور شرعا پسندیدہ امر نہیں ہے باقی جو کچھ مہر مقرر کر دیا جاوے اگر چہ وہ شوہر کی حیثیت سے زیادہ ہو وہ مہر لازم ہو جاتا ہے اور نکاح ہو جاتا ہے۔ "
(کتاب النکاح،ساتواں باب، فصل اول: مسائل و احکام مہر، ج : 8، ص : 242، ط : دار الاشاعت)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس."
(کتاب الطلاق، باب النفقات، ج:3، ص:572، ط:سعید)
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں:
’’بیوی کا یہ بھی حق ہےکہ اس کو کچھ رقم ایسی بھی دے جس کو وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکے، اس کی تعداد اپنی بیوی اور اپنی حیثیت کے موافق ہوسکتی ہے.‘‘
(منتخب انمول موتی، ص:142، ادارہ تالیفات اشرفیہ)
جیب خرچ دینے کی واقعی ضرورت ہے، مذکورہ عنوان کے تحت حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں:
’’چوں کہ دینی ودنیوی مصارف (اخرجات) کی حاجت اکثر واقع ہوتی رہتی ہے۔ اور عورتوں کے پاس اکثر جدا گانہ مال نہیں ہوتا اس لیے مردوں کو مناسب ہے کہ نفقہ واجبہ (اور مہر) کے علاوہ حسب حیثیت کچھ خرچ ایسے مواقع کے لیے علیحدہ بھی دیا کریں۔۔۔‘‘
(تحفہ زوجین،ص: 85، ط: المیزان)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603102073
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن