کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنی بیوی کو کہا تھا کہ "اللہ کی قسم میں آئندہ تمہیں حق زوجیت کے لیے نہیں کہوں گا" ، پوچھنا یہ تھا کہ کیایہ کہنے سے کوئی نکاح پر کوئی فرق پڑتا ہے ؟
صورت مسئولہ میں شوہر اگر بیوی کو حق زوجیت کےلیے کہے گا تو حانث ہو جائے گا ، اور اس صورت میں قسم کا کفارہ یہ ہے کہ دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلا دے یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دے دے( یعنی پونے دو کلو گندم یا اس کی رقم )اور اگر جو دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے، یا دس فقیروں کو ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔ اور اگر کوئی ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے تو قسم کے کفارہ کی نیت سے مسلسل تین روزے رکھے ،اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔
اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے :
"﴿ لا يُؤاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمانِكُمْ وَلكِنْ يُؤاخِذُكُمْ بِما عَقَّدْتُمُ الْأَيْمانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمانَكُمْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آياتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾." (المائدة: 89)
فتاوی شامی میں ہے:
"قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي."
(كتاب الطلاق،ركن الطلاق،ص:230،ج:3،ط:سعيد)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"و إذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقًا."
(ج:1، ص:420، كتاب الطلاق، الباب الرابع، الفصل الثالث، ط:رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510101406
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن