بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو طلاق دیتے وقت جادو کے اثرات کا وہم ہونا


سوال

ایک سال پہلے مجھ پر اثرات ہوئے،جس کی وجہ سے مجھ پر حاضری ہوتی تھی،اس حاضری کے دوران میں اپنے شوہر سے بدتمیزی کرتی تھی اور چھوڑنے کی بات کرتی تھی،پھر میرا علاج ہوااورمیں ٹھیک ہوگئی،لیکن شوہر سے میری نوک جھوک ہوتی رہتی تھی،اسی دوران میری اپنے ماموں سے لڑائی ہوگئی،لڑائی کی شدت بہت زیادہ تھی،میرے ماموں نے شوہر اور مجھ سے کہا کہ میں تم دونوں کو طلاق دلواؤں گا،اس بات کو ایک سال ہوا اورہم میاں بیوی لڑجھگڑ کر اپنی زندگی گزار رہےتھےکہ اچانک ہماری زندگی میں منگل والے دن ایک حادثہ ہوگیا،میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ آپ مجھے طلاق دیں،شوہر نے مجھے تین دفعہ طلاق دےدی،طلاق کے الفاظ یہ تھے:”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،میں تمہیں طلاق دیتا ہوں،میں تمہیں طلا ق دیتا ہوں“،اس کے گواہ بھی ہیں،جن میں میرا بھائی،میری امی،میرے سسر اور میرا دیور شامل ہیں،بس میرے شوہر نے غصہ اور جذبات میں آکر تین دفعہ کہہ دیا ہے،میرے شوہر کا کہنا ہے کہ ان کا دماغ حاضر نہیں تھا،اورایسا لگ رہا تھاجیسےکسی نے دماغ بند کردیا ہو،پھرطلاق دینے کے بعد ہم دونوں بالکل صحیح ہوگئے،جو ایک سال سے ہم میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کو زہر لگ رہے تھےاس طلاق کے واقعہ کے بعد بالکل صحیح ہوگئے،اب ہم دونوں کو ایک دوسرے کی یاد آرہی ہے،ہمیں ایسا لگ رہا ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی پر جادو ہوا تھا،مہربانی فرماکر اس کا جواب دےدیں کہ میں اب شوہر کے نکاح میں ہوں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگرکسی شخص پر جادو بھی ہواور جادوہونے کے باوجود اگر  اس کے ہوش و حواس اس قدر برقرار ہوں، اپنے معاملات کو وہ سمجھ رہا ہو،کام وکاج کرلیتا ہواور اس کو اپنوں اور غیروں کی تمیز ہو، منہ سے نکلنے والے الفاظ کے بارے میں اسے علم ہو  کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کس سے کہہ رہا ہے تو ایسی حالت میں اگر وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو شرعاً ایسے شخص کی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سوال سے معلوم ہوتا ہےكہ طلاق دیتے وقت شوہر پرجادوئی اثرات والی كوئی کیفیت نہیں تھی،اور نہ ہی مدہوش تھا کہ اسے اپنے قول وفعل اور نفع ونقصان کا کچھ علم نہ ہوتو ایسے حال میں سائلہ کے مطالبۂ طلاق پر جب شوہر نے تین مرتبہ ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں “کہاہے،تو اس سے سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہو گئی ہیں اور نکاح ختم ہو گیاہے، بیوی شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے،  اب ساتھ رہنا اور رجوع کرنا جائز نہیں اور نہ ہی تجدید نکاح کی گنجائش  ہے،سائلہ اپنی عدت (پوری تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)  گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"لا يصح طلاق المجنون، ومثله المغمى عليه، والمدهوش: وهو الذي اعترته حال انفعال لا يدري فيها ما يقول أو يفعل، أو يصل به الانفعال إلى درجة يغلب معها الخلل في أقواله وأفعاله، بسبب فرط الخوف أو الحزن أو الغضب."

(القسم السادس: الاحوال الشخصیة، الباب الثانی: انحلال الزواج و آثارہ، الفصل الاول:الطلاق، ج:9، ص:6882، ط:دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله والمجنون) قال في التلويح: الجنون اختلال القوة المميزة بين الأمور الحسنة والقبيحة المدركة للعواقب، بأن لا تظهر آثاره وتتعطل أفعالها، إما لنقصان جبل عليه دماغه في أصل الخلقة، وإما لخروج مزاج الدماغ عن الاعتدال بسبب خلط أو آفة، وإما لاستيلاء الشيطان عليه وإلقاء الخيالات الفاسدة إليه بحيث يفرح ويفزع من غير ما يصلح سببا."

(کتاب الطلاق، ج:3، ص:243، ط:سعید)

وفیه ایضا:

"وسئل نظماً فيمن طلق زوجته ثلاثاً في مجلس القاضي وهو مغتاظ مدهوش، أجاب نظماً أيضاً بأن الدهش من أقسام الجنون فلا يقع، وإذا كان يعتاده بأن عرف منه الدهش مرةً يصدق بلا برهان. اهـ. قلت: وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لايتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه. والثاني أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده، فهذا لا ريب أنه لا ينفذ شيء من أقواله ... فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن الإدراك صحيح كما لا تعتبر من الصبي العاقل."

(کتاب الطلاق، مطلب فی طلاق المدھوش،ج:3، ص:244، ط: سعید) 

وفیه أیضا:

"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)....(بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي "إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية...(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر).....(ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره (إن وطئت) في الكل ولو حكما كالخلوة ولو فاسدة كما مر."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:504-510، ط: سعيد)

وفیه أیضا:

"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:511، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا."

(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ج:1، ص:349، ط:دار الفکر بیروت)

وفیه أیضا:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية. و لا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولًا بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير. و يشترط أن يكون الإيلاج موجبًا للغسل و هو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. أما الإنزال فليس بشرط للإحلال."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به،ج:1،ص:473، ط: دار الفكر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"اگر جنون و سحر وغیرہ کی وجہ سے ہوش و حواس قائم نہ رہے اور یہ معلوم نہ ہو کہ زبان سے کیا الفاظ کہہ رہا ہے اور ان کا کیا نتیجہ ہوگا تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوئی، اگر یہ بات نہ ہو بلکہ الفاظ کے مطلب کو سمجھتا ہو پھر اس طرح کہے تو طلاق ہوجاتی ہے۔۔۔الخ"

(کتاب الطلاق، باب الطلاق بالکتابۃ، ج: 12، ص: 651، ط: ادارۃ الفاروق)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144605102162

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں