1- ایک آدمی کی شادی ہوگئی اور شادی کے بعد بیوی کے والدین شوہر سے بیوی کو دو،تین دن کے بعد اپنے یہاں طلب کرتے ہیں یہ کہہ کر کہ: ہمیں بیٹی یاد آتی ہے، اور شوہر اس سے منع کرتا ہے، پھر مسئلہ یہاں تک پہنچ جائے کہ بیوی کی والدہ نے شوہر سے کہا کہ اگر آپ اس کو نہیں لے کے آسکتے ہو تو اسے طلاق دے دو اور بیوی کی بھی یہی رائے ہے، اس صورت میں شوہر کے لیے کیا حکم ہے؟ ایک طرف رشتہ داری کا مسئلہ ہے اور دوسری طرف شوہر کی ایذا رسانی کا مسئلہ ہے۔
2- کیا شوہر اپنی بیوی کے موبائل کا واٹس اپ وغیرہ چیک کرسکتا ہے؟
3- اگر کوئی چیز بیوی کو ہبہ کردی تو کیا اس سے رجوع کرسکتا ہے، جب کہ اس دی ہوئی چیز سے شوہر بیوی کا نافرمان ہونا محسوس کرے؟
4- کیا شوہر کو اختیار ہے کہ بالکل بیوی کو والدین کے گھر پر جانے سے روک دے، جب کہ اس میں فتنہ کا خوف ہو؟
5- اگر بیوی نافرمانی کرے تو شوہر کس قدر بیوی کو مار سکتا ہے؟
1۔ واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے ازدواجی رشتہ کو قائم رکھنے کی بہت تاکید کی ہے، اور بڑے اہتمام کے ساتھ میاں بیوی کے حقوق کو بیان کیا ہے، نیز میاں بیوی کا رشتہ قاعدوں اور ضابطوں کے بجائے حسنِ اخلاق سے نبھایاجائے تو یہ رشتہ کامیاب رہتا ہے، لہذا اس مسئلہ میں اعتدال کے ساتھ کام لیا جائے، دونوں ہی اپنے اوپر لازم حقوق کو پورا کرنے کی کوشش کریں، انہی میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو بلا کسی وجہ کے اس کے والدین سے ملنے سے نہ روکے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ عام حالات میں شوہر کو چاہیے کہ اپنے خاندان اور برادری کے عرف کے مطابق اپنی بیوی کو اس کے والدین اور دیگر محارم عزیز و اقارب سے ملاقات کی اجازت دے، ورنہ ہفتہ میں ایک مرتبہ والدین سے ملنے اور سال میں کم از کم ایک مرتبہ دیگر محارم سے ملنے کا حق حاصل ہے، لیکن اگر بیوی کے وہاں جاکر ملنے کی صورت میں بہت زیادہ لڑائی جھگڑے یا گھر ٹوٹنے کا اندیشہ ہو، یا کسی بے دینی میں گرنے کا اندیشہ ہو، تو شوہر بیوی کو ان کے پاس جانے سے روک سکتا ہے، البتہ ایسی صورت میں بیوی کے والدین یا بہن بھائی شوہر کے گھر آکر ملنا چاہیں، تو اس میں شوہر رکاوٹ نہیں بن سکتا۔
جہاں تک لڑائی کا تعلق ہے، تو عام طور پر اس میں دونوں جانب سے اپنے رویوں میں اعتدال پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، بلاوجہ کی سختیاں کردینے سے معاملات حل نہیں ہوتے، یہ رشتہ ازدواجی ہے، جو باہمی محبت و الفت اور ایک دوسرے کو عزت دینے سے ہی چل سکتا ہے۔
نیز ان سب چیزوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ رجوع الیٰ اللہ اور دعاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کو عزت دینے کے ساتھ ساتھ، استغفار اور اللہ تعالی سے دعاؤں کا اہتمام بھی کرتے رہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
(ولا يمنعها من الخروج إلى الوالدين) في كل جمعة إن لم يقدرا على إتيانها على ما اختاره في الاختيار ولو أبوها زمنا مثلا فاحتاجها فعليها تعاهده ولو كافرا وإن أبى الزوج فتح (ولا يمنعهما من الدخول عليها في كل جمعة، وفي غيرهما من المحارم في كل سنة) لها الخروج ولهم الدخول زيلعي (ويمنعهم من الكينونة) وفي نسخة: من البيتوتة لكن عبارة منلا مسكين: من القرار (عندها) به يفتى خانية، ويمنعها من زيارة الأجانب وعيادتهم والوليمة، وإن أذن كانا عاصيين كما مر في باب المهر.
وفي رد المحتار تحته: (قوله على ما اختاره في الاختيار) الذي رأيته في الاختيار شرح المختار: هكذا قيل لا يمنعها من الخروج إلى الوالدين وقيل يمنع؛ ولا يمنعهما من الدخول إليها في كل جمعة وغيرهم من الأقارب في كل سنة هو المختار. اه فقوله هو المختار مقابله القول بالشهر في دخول المحارم كما أفاده في الدرر والفتح، نعم ما ذكره الشارح اختاره في فتح القدير حيث قال: وعن أبي يوسف في النوادر تقييد خروجها بأن لا يقدرا على إتيانها، فإن قدرا لا تذهب وهو حسن، وقد اختار بعض المشايخ منعها من الخروج إليهما وأشار إلى نقله في شرح المختار. والحق الأخذ بقول أبي يوسف إذا كان الأبوان بالصفة التي ذكرت، وإلا ينبغي أن يأذن لها في زيارتهما في الحين بعد الحين على قدر متعارف، أما في كل جمعة فهو بعيد، فإن في كثرة الخروج فتح باب الفتنة خصوصا إذا كانت شابة والزوج من ذوي الهيئات، بخلاف خروج الأبوين فإنه أيسر. اه وهذا ترجيح منه لخلاف ما ذكر في البحر أنه الصحيح المفتى به من أنها تخرج للوالدين في كل جمعة بإذنه وبدونه، وللمحارم في كل سنة مرة بإذنه وبدونه.
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:602، ط: سعيد)
2۔ اللہ رب العزت نے نکاح کی برکت سے میاں بیوی کی شکل میں جو رشتہ بطور نعمت عطا فرمایا ہے، اس کا مدار اعتماد اور بھروسے پر رکھا ہے، زوجین کا رشتہ اور تعلقات خوش گوار رہنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کریں اور ایک دوسرے کے بارے میں بد گمانی سے بچیں، ایک دوسرے پر شک اور بد گمانی سے ازدواجی زندگی میں بہت بڑا بگاڑ آجاتا ہے، ایک دوسرے کے ظاہری احوال معلوم ہونے پر ہی اکتفا کرنا چاہیے اور آپس میں ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگ کر ایک دوسرے کے عیب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، اور ایسے تمام امور سے بچنا چاہیے جو شک و شبہ کو جنم دے سکتے ہوں اور باہمی بد اعتمادی کا باعث ہوں، چناں چہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرد کو بغیر بتائے رات کے وقت سفر سے گھر لوٹنے سے بھی اجتناب کا حکم دیا ہے، من جملہ دیگر حکمتوں کے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کسی ایسی بات یا حالت پر مطلع نہ ہو جو اسے ناپسند ہو یا جس سے اعتماد کو ٹھیس پہنچے، نیز اللہ رب العزت نے ٹوہ لگانے اور تجسس سے منع فرمایا ہے، (1) ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا﴾ [الحجرات: ١٢]
ترجمہ:" اے ایمان والو بہت سے گمانوں سے بچا کرو؛ کیوں کہ بعضے گمان گناہ ہوتے ہیں اور سراغ مت لگایا کرو ۔" (بیان القرآن)
نیز شریعتِ مطہرہ نے ہر شخص کو اپنی مملوکہ اشیاء کے استعمال میں آزاد رکھا ہے، اور اسے یہ حق دیا ہے کہ وہ دوسرے افراد کو اس سے کسی بھی قسم کے تصرفات سے روکے، اور دوسروں کو پابند کیا ہے کہ کسی کی کوئی بھی چیز مالک کی اجازت اور اس کی رضامندی کے بغیر استعمال نہ کرے، پس صورتِ مسئولہ میں بیوی اپنے موبائل کی مالکہ ہے، لہذا شوہر کا بیوی کی اجازت کے بغیر اس کے موبائل کا واٹس اپ وغیرہ چیک کرنا جائز نہیں، بیوی کو اس سے روکنے کا حق حاصل ہے، نیز ملحوظ رہے کہ جس طرح سے ناجائز تعلقات استوار کرنا عورت کے لیے جائز نہیں، بالکل اسی طرح مرد کے لیے بھی جائز نہیں، لہذا شک و شبہ اور بدگمانی میں مبتلا ہونے سے اپنے آپ کو بچانے کا اہتمام کریں، البتہ اگر بیوی غلط روش پر ہو، اور دلائل سے ثبوت بھی ہو یا قرائنِ قویہ موجود ہوں، تو اسے متنبہ کرنے کی اجازت ہوگی، تاہم زبردستی ایسی چیز تلاش کرنا غلط عمل ہے۔
(1) فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ہے:
باب: لايطرق أهله ليلًا إذا أطال الغيبة مخافة أن يخونهم أو يلتمس عثراتهم.
الشرح: قوله (باب لا يطرق أهله ليلا إذا أطال الغيبة مخافة أن يتخونهم أو يلتمس عثراتهم)..... وقوله:"عثراتهم بفتح المهملة والمثلثة جمع عثرة وهي الزلة، ووقع عند أحمد والترمذي في رواية من طريق أخرى عن الشعبي عن جابر بلفظ " لا تلجوا على المغيبات فإن الشيطان يجري من ابن آدم مجرى الدم.
حدثنا محارب بن دثار قال: سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يكره أن يأتي الرجل أهله طروقا.... الشرح: قوله (يكره أن يأتي الرجل أهله طروقاً) في حديث أنس " أن النبي صلى الله عليه وسلم كان لا يطرق أهله ليلا، وكان يأتيهم غدوة أو عشية " أخرجه مسلم، قال أهل اللغة: الطروق بالضم المجيء بالليل من سفر أو من غيره على غفلة، ويقال لكل آت بالليل: طارق، ولا يقال بالنهار إلا مجازا كما تقدم تقريره في أواخر الحج في الكلام على الرواية الثانية حيث قال: لا يطرق أهله ليلا، ومنه حديث " طرق عليا وفاطمة "، وقال بعض أهل اللغة: أصل الطروق: الدفع والضرب، وبذلك سميت الطريق؛ لأن المارة تدقها بأرجلها، وسمى الآتي بالليل طارقا؛ لأنه يحتاج غالبا إلى دق الباب، وقيل: أصل الطروق: السكون، ومنه: أطرق رأسه، فلما كان الليل يسكن فيه سمى الآتي فيه طارقا. الحديث: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ الشَّعْبِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَطَالَ أَحَدُكُمْ الْغَيْبَةَ فَلَا يَطْرُقْ أَهْلَهُ لَيْلًا الشرح: وقوله في طريق عاصم عن الشعبي عن جابر " إذا أطال أحدكم الغيبة فلا يطرق أهله ليلا " التقييد فيه بطول الغيبة يشير إلى أن علة النهي إنما توجد حينئذ، فالحكم يدور مع علته وجودا وعدما، فلما كان الذي يخرج لحاجته مثلاً نهارًا ويرجع ليلاً لايتأتى له ما يحذر من الذي يطيل الغيبة كان طول الغيبة مظنة الأمن من الهجوم، فيقع الذي يهجم بعد طول الغيبة غالبا ما يكره، إما أن يجد أهله على غير أهبة من التنظف والتزين المطلوب من المرأة فيكون ذلك سبب النفرة بينهما، وقد أشار إلى ذلك بقوله في حديث الباب الذي بعده بقوله " كي تستحد المغيبة، وتمتشط الشعثة " ويؤخذ منه كراهة مباشرة المرأة في الحالة التي تكون فيها غير متنظفة؛ لئلا يطلع منها على ما يكون سببا لنفرته منها، وإما أن يجدها على حالة غير مرضية والشرع محرض على الستر وقد أشار إلى ذلك بقوله " أن يتخونهم ويتطلب عثراتهم " فعلى هذا من أعلم أهله بوصوله وأنه يقدم في وقت كذا مثلا لا يتناوله هذا النهي، وقد صرح بذلك ابن خزيمة في صحيحه، ثم ساق من حديث ابن عمر قال " قدم النبي صلى الله عليه وسلم من غزوة فقال: لا تطرقوا النساء، وأرسل من يؤذن الناس أنهم قادمون "، قال ابن أبي جمرة نفع الله به: فيه النهي عن طروق المسافر أهله على غرة من غير تقدم إعلام منه لهم بقدومه، والسبب في ذلك ما وقعت إليه الإشارة في الحديث قال: وقد خالف بعضهم فرأى عند أهله رجلا فعوقب بذلك على مخالفته ا هـ. وأشار بذلك إلى حديث أخرجه ابن خزيمة عن ابن عمر قال " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تطرق النساء ليلا، فطرق رجلان كلاهما وجد مع امرأته ما يكره "، وأخرجه من حديث ابن عباس نحوه وقال فيه :" فكلاهما وجد مع امرأته رجلا "، ووقع في حديث محارب عن جابر: " أن عبد الله بن رواحة أتى امرأته ليلا وعندها امرأة تمشطها فظنها رجلا فأشار إليها بالسيف فلما ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم نهى أن يطرق الرجل أهله ليلا ". أخرجه أبو عوانة في صحيحه. وفي الحديث: الحث على التواد والتحاب خصوصا بين الزوجين؛ لأن الشارع راعى ذلك بين الزوجين مع اطلاع كل منهما على ما جرت العادة بستره حتى إن كل واحد منهما لا يخفى عنه من عيوب الآخر شيء في الغالب، ومع ذلك فنهى عن الطروق لئلا يطلع على ما تنفر نفسه عنه فيكون مراعاة ذلك في غير الزوجين بطريق الأولى، ويؤخذ منه أن الاستحداد ونحوه مما تتزين به المرأة ليس داخلا في النهي عن تغيير الخلقة، وفيه التحريض على ترك التعرض لما يوجب سوء الظن بالمسلم".
(كتاب النكاح، باب لايطرق أهله ليلا إذا طال الغيبة، ج:9، ص:339، ط: دار المعرفة)
سنن أبی داؤد میں ہے:
"عن معاوية، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إنك إن اتبعت عورات الناس أفسدتهم، أو كدت أن تفسدهم» فقال أبو الدرداء: «كلمة سمعها معاوية من رسول الله نفعه الله تعالى بها...وأبي أمامة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن الأمير إذا ابتغى الريبة في الناس أفسدهم....عن زيد بن وهب، قال: أتي ابن مسعود فقيل هذا فلان تقطر لحيته خمرا، فقال عبد الله: «إنا قد نهينا عن التجسس ولكن إن يظهر لنا شيء نأخذ به."
(كتاب الأدب، باب النهي عن التجسس، ج:4، ص:272، ط: المكتبة العصرية بيروت)
3۔ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو کوئی چیز ہبہ کرے اور ہبہ مکمل شرائط کے ساتھ کرے یعنی قبضہ وغیرہ دے دے تو ہبہ تام ہوجاتا ہے، اس کے بعد شوہر کے لیے بیوی کو ہبہ دی ہوئی چیز واپس لینا جائز نہیں اور نہ ہی اس کا اعتبار ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
""أما العوارض المانعة من الرجوع فأنواع (منها) هلاك الموهوب ... (ومنها) خروج الموهوب عن ملك الموهوب له ... (ومنها) موت الواهب، . . (ومنها) الزيادة في الموهوب زيادة متصلة . . . (ومنها) أن يتغير الموهوب .. (ومنها الزوجية) (ومنها القرابة المحرمية)."
(الباب الخامس في الرجوع في الهبة وفيما يمنع عن الرجوع ما لا يمنع، ج: 4، ص: 385، ط: دار الفكر)
4۔ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے والدین سے بات چیت کرنے یا ملاقات سے منع کرے، ملاقات کرنے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر والدین اس کے پاس آسکتے ہوں تو وہ آئیں، ملاقات کر کے چلے جائیں، اور اگر ان کے لیے آنا ممکن نہ ہو تو ہفتے میں ایک بار ان سے ملنے جاسکتی ہے، شوہر کو منع کرنے کا حق نہیں، سوال میں ذکر کردہ خاوند کا رویہ درست نہیں، غیر شرعی ہے، توبہ کرنی چاہیے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدًا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك، قال بعضهم: لايمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا -رحمهم الله تعالى-، وعليه الفتوى، كذا في فتاوى قاضي خان، وقيل: لايمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرةً، وعليه الفتوى."
( کتاب الطلاق، الباب السادس عشر، الفصل الثانی، ج:11،ص:415، ط: دار الفکر)
5۔ نافرمان بیوی کی اصلاح کے لیے قرآن کریم کی سورۂ نساء کی آیت 34میں اللہ تعالیٰ نے علی الترتیب تین طریقے ذکر فرمائے ہیں، چناں چہ فرمانِ الٰہی ہے:
"وَٱلَّٰتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَٱهۡجُرُوهُنَّ فِي ٱلۡمَضَاجِعِ وَٱضۡرِبُوهُنَّۖ"(سورة النساء: الأية:34)
’’ترجمہ : اور جو عورتیں ایسی ہوں کہ تم کو ان کی بد دماغی کا احتمال ہو تو ان کو زبانی نصیحت کرو اور ان کو ان کے لیٹنے کی جگہوں میں تنہا چھوڑ دو اور ان کو مارو ۔‘‘(بیان القرآن)
اس آیتِ مبارکہ کے ذیل میں مفتی شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں:
یعنی عورتو ں کی طرف سے اگر نافرمانی کا صدور یا اندیشہ ہو ، تو پہلا درجہ ان کی اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے ان کو سمجھاؤ،اگربیوی محض سمجھانے بجھانے سے باز نہ آئے تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ ان کا بستر علیحدہ کر دو، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضگی کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہو جائیں، قرآن کریم کے الفاظ میں "فی المضاجع" کا لفظ ہے، اس سے فقہائے کرام نے یہ مطلب نکالا ہےکہ جدائی صرف بسترہ میں ہو، مکان کی جدائی نہ کرے، کہ عورت کو مکان میں تنہا چھوڑدے، اس میں ان کو رنج بھی زیادہ ہوگا، اور فساد بڑھنے کا اندیشہ بھی اس میں زیادہ ہے۔اور جو اس شریفانہ سزا وتنبیہ سے بھی متاثر نہ ہو تو پھر اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کو مطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔(معارف القرآن، سورۃ النساء، آیت :34، ج:2، ص:399، ط: معارف القرآن)
"بخاری شریف" کی روایت میں ہے:
""عن عبد الله بن زمعة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يجلد أحدكم امرأته جلد العبد، ثم يجامعها في آخر اليوم."
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے ؛کیوں کہ یہ بات مناسب نہیں کہ اول تو اسے مارے پھر اخیر دن اس سے اپنی خواہش پوری کرے۔ ‘‘
(كتاب النكاح، باب ما يكره من ضرب النساء، ج:٥، ص:١٩٩٧، ط:دارابن كثير)
نیز حجۃ الوداع کے موقع پرنبی کریم ﷺنے اپنے خطبے میں ارشاد فرمایاتھا:
’’ سلیمان بن حضرت عمرو بن احوص فرماتے ہیں کہ وہ حجۃ الوداع میں نبی اکرم ﷺکے ساتھ شریک ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: عورتوں کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت (مجھ سے) لو ؛ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں ،تم ان سے (اپنی طبعی حاجت ) کے علاوہ اور کسی چیز کے مالک نہیں ہو ، الاّ یہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں، اور اگر وہ ایسا کریں تو ان کو بستروں میں اکیلا چھوڑ دو (یعنی اپنے ساتھ مت سلاؤ)، اور انہیں مارو، لیکن سخت نہ مارو (کہ ہڈی پسلی توڑ دو)، پھر اگر یہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے لیے اور راہ نہ تلاش کرو ، تمہارا حق عورتوں پر ہے، اور تمہاری عورتوں کا حق تم پر ہے، تمہارا بیویوں پر یہ حق ہے کہ تمہارا بستر اُسے نہ روندنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو (یعنی تمہاری اجازت اور مرضی کے بغیر گھر نہ آنے دیں)، اور جس کو تم ناپسند کرتے ہو اسے تمہارے گھر آنے کی اجازت نہ دیں، اور سنو! ان کا تم پر یہ حق ہے کہ تم لباس اور کھانا دینے میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔‘‘
سننِ ترمذی میں ہے:
" حدثنا الحسن بن علي الخلال، قال: حدثنا الحسين بن علي الجعفي ، عن زائدة ، عن شبيب بن غرقدة ، عن سليمان بن عمرو بن الأحوص قال: حدثني أبي «أنه شهد حجة الوداع» مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحمد الله وأثنى عليه، وذكر ووعظ، فذكر في الحديث قصة، فقال: ألا واستوصوا بالنساء خيرا، فإنما هن عوان عندكم، ليس تملكون منهن شيئا غير ذلك، إلا أن يأتين بفاحشة مبينة، فإن فعلن فاهجروهن في المضاجع واضربوهن ضربا غير مبرح، فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا، ألا إن لكم على نساءكم حقا، ولنسائكم عليكم حقا، فأما حقكم على نساءكم فلا يوطئن فرشكم من تكرهون ولا يأذن في بيوتكم لمن تكرهون، ألا وحقهن عليكم أن تحسنوا إليهن في كسوتهن وطعامهن. هذا حديث حسن صحيح"
(أبواب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة على زوجها، ج:2، ص:455، ط: دار الغرب الإسلامي، بيروت)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602101679
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن