بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے ناراض ہوکر میکے چلے جانے کی صورت میں مہر، نان و نفقہ اور بچوں کی پرورش کے احکام


سوال

پچھلے کچھ عرصہ سے میرے اپنی بیوی سے تعلقات خراب چل رہے ہیں، ان میں بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ بیوی نے موبائل کا مطالبہ کیا، میں نے اس کو منع کردیا، اس پر اس نے میرے ساتھ بدتمیزی بھی کی، مجھے لعنت بھی دی ،اور ہاتھ اٹھانے کی بھی کوشش کی ، لیکن میں  نے اس کو معاف کیا، اگلی مرتبہ دوبارہ ایسا ہوا، تو مجھے غصہ آیا ، میں نے بھی اس پر ہاتھ اٹھایا،تو اس نے اپنے والد اور بھائی کو بلایااور میکے چلی گئی۔ میں نے اپنے مارنے پر اس سے فون کے ذریعہ متعدد مرتبہ معافی مانگی، لیکن وہ نہیں مانتی ہے، میں گھر والوں کے سامنے بھی معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں،  لیکن بیوی راضی نہیں ہورہی۔

اب پچھلے 13 ماہ سے وہ اپنے میکے میں ہے، میں نے کئی مرتبہ صلح کا پیغام بھیجا ہے،لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ اس دوران میری بیٹی بھی پیداہوئی ہے، لیکن مجھے اس کی شکل بھی نہیں دکھائی گئی ۔ نان ونفقہ سے متعلق  میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ آپ نہیں آتی  تو میں ہر ماہ کا خرچہ بھیج دوں، کہا کہ مجھےکوئی ضرورت نہیں۔

بچی کی ولادت  سے پہلے میں نے کہا تھا کہ میں خرچہ اٹھاؤں گا ،لیکن ولادت کے وقت  مجھے بتایا ہی نہیں اور کب بچی پیدا ہوگئی، مجھے نہیں معلوم،  نیز میں تو ہر دم صلح کے لیے تیار ہوں لیکن سسر کہتے ہیں کہ اس موضوع پر ہم سے بات نہ کریں۔

اس ساری تفصیل کے بعد سوال یہ ہے کہ :

1۔ بیوی  کا نفقہ میرے  ذمہ ہے؟  نہ دینے پر گناہ ملے گا؟

2۔ بیوی کا حق مہر مجھ پر لازم ہے ؟

3۔ میرے دو بچے ہیں، ایک بیٹا اور ایک بیٹی، ان کی پرورش اور نفقہ  کس کے ذمہ ہے؟ نیز وہ کب تک اپنی ماں کے پاس رہ سکتے ہیں،  اس مدت میں میرا اپنے بچوں سے ملنا جائز ہے؟ مجھے میرے بچے کب واپس ملیں گے؟لڑکے کی عمر ڈھائی سال ہے اور لڑکی 9 ماہ کی ہے،  یہ بھی  واضح رہے کہ 13 ماہ ہوچکے ہیں،  مجھے اپنے بچوں سے ملنے نہیں دیا گیا۔

4۔ بیوی طلاق کا مطالبہ کررہی ہے، طلاق دینےکے بعد اس کا نفقہ مجھ پر لازم ہوگا؟

5۔ طلاق کے بعد بچے کس کے پاس رہیں گے؟

جواب

1۔ صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً بیوی بغیر وجہِ شرعی کے اپنے میکے میں بیٹھی ہے،  شوہر کے بلانے پر بھی نہیں آرہی، صلح کے لیے بھی راضی نہیں ہے، تو ایسی عورت گناہ گار ہوگی اور شوہر پر اس کا نفقہ لازم نہیں ،  نفقہ ادا نہ کرنے سے شوہر گناہ گار نہیں ہوگا ۔(1)

2۔ نکاح کے بعد مہر کی ادائیگی واجب ہوجاتی ہے، لہذا  اگر شوہر نے ابھی تک مہر ادا نہیں کیا ، تو اس کو اد اکرنا ضروری ہے۔(2)

3۔ مذکورہ صورت میں سسرال والوں کا سائل کو اس کے بچوں سے ملاقات سے روکنا شرعاً جائز نہیں، سائل جب چاہے اپنے بچوں سے مل سکتا ہے۔

دونوں میں علیحدگی کی صورت میں   بچوں کی پرورش کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ لڑکا سات سال کی عمر تک تو ماں کے پاس رہے گا، سات سال بعد والد کو اختیار ہوگا کہ اس بچہ کو اپنی تربیت میں لے لے۔ لڑکی کی نو سال کی عمر تک اس کی   ماں  پرورش کی حق دار ہے، اس کے بعد والد  کو اختیار ہوگا کہ اس بچی کو اپنی تربیت میں لے لے، البتہ اگر اس اثنا   میں والدہ کی دوسری جگہ شادی ہوجاتی ہے، تو پھر بچوں کی پرورش اس کی نانی کے ذمہ ہوگی، اگر نانی نہ ہو تو پھر دادی، اگر وہ بھی نہ ہو تو خالہ، خالہ کی غیر موجودگی میں پھوپھی کو حق حاصل ہوگا۔(3)

بہر صورت دونوں بچوں کا نفقہ ان کے والد یعنی سائل کے ذمہ لازم ہے۔(4)

4۔ مذکورہ صورت میں شوہر پر بیوی کا نفقہ لازم نہیں ، چاہے طلاق دے یا نہ دے۔

5۔ اگر شوہر نے طلاق دے دی تب بھی لڑکا سات سال کی عمر تک اور لڑکی نو سال کی عمر تک اپنی والدہ کے پاس رہیں گے، اس کے بعد والد کا حق ہوگا۔ 

(1)، فتاوی شامی میں ہے:

"(لا) نفقة لأحد عشر: مرتدة، ومقبلة ابنه، ومعتدة موت،ومنكوحة فاسدا وعدته، وأمة لم تبوأ، وصغيرة لا توطأ، و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره۔

(قوله وهي الناشزة) أي بالمعنى الشرعي أما في اللغة فهي العاصية على الزوج المبغضة له."

(کتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص: 576، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما شرط وجوب هذه النفقة فلوجوبها شرطان: أحدهما يعم النوعين جميعا أعني: نفقة النكاح ونفقة العدة.۔۔۔ أما الأول فتسليم المرأة نفسها إلى الزوج وقت وجوب التسليم ونعني بالتسليم: التخلية وهي أن تخلي بين نفسها وبين زوجها برفع المانع من وطئها أو الاستمتاع بها حقيقة إذا كان المانع من قبلها أو من قبل غير الزوج فإن لم يوجد التسليم على هذا التفسير وقت وجوب التسليم؛ فلا نفقة لها."

(كتاب النفقة، فصل في شرط وجوب هذه النفقة، ج:4، ص:18، ط: دار الكتب العلمية)

(2)، فتاوی شامی میں ہے:

"ويتأكد (عند وطء أو خلوة صحت) من الزوج (أو موت أحدهما) أو تزوج ثانيا في العدة،

(قوله ويتأكد) أي الواجب من العشرة لو الأكثر وأفاد أن المهر وجب بنفس العقد لكن مع احتمال سقوطه بردتها أو تقبيلها ابنه أو تنصفه بطلاقها قبل الدخول، وإنما يتأكد لزوم تمامه بالوطء ونحوه ظهر أن ما في الدرر من أن قوله عند وطء متعلق بالوجوب غير مسلم كما أفاده في الشرنبلالية: قال في البدائع: وإذا تأكد المهر بما ذكر لا يسقط بعد ذلك، وإن كانت الفرقة من قبلها لأن البدل بعد تأكده لا يحتمل السقوط إلا بالإبراء كالثمن إذا تأكد بقبض المبيع."

(کتاب النکاح، باب المھر، ج:3، ص102، ط: دار الفکر)

ہدایہ میں ہے:

"وإذا خلا الرجل بامرأته، و ليس هناك مانع من الوطئ، ثم طلقها فلها كمال المهر."

(باب المھر، ج:1، ص:200، ط: دار احیاء التراث)

3، فتاوی شامی میں ہے:

"(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم بحر بحثا."

(کتاب الطلاق، باب الحضانة، ج:3، ص:566، ط: دار الفكر)

بدائع الصنائع میں ہے:

"واختلفت الرواية عن أبي حنيفة في الأخت لأب مع الخالة أيتهما أولى؟ روي عنه في كتاب النكاح أن الخالة أولى وهو قول محمد وزفر.وروي عنه في كتاب الطلاق أن الأخت لأب أولى، وجه الرواية الأولى ما روي أن بنت حمزة لما رأت عليا رضي الله عنه تمسكت به وقالت: ابن عمي فأخذها فاختصم فيها علي وجعفر وزيد بن حارثة رضي الله عنهم فقال رضي الله عنه: بنت عمي وقال جعفر: بنت عمي وخالتها عندي وقال زيد بن حارثة رضي الله عنه: بنت أخي آخيت بيني وبين حمزة يا رسول الله فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم بها لخالتها وقال صلى الله عليه وسلم «الخالة والدة» فقد سمى الخالة والدة فكانت أولى وجه الرواية الأخرى أن الأخت لأب بنت الأب والخالة بنت الجد فكانت الأخت أقرب فكانت أولى وبنت الأخت لأب وأم أولى من الخالة؛ لأنها من ولد الأبوين وكذا بنت الأخت لأم؛ لأنها من ولد الأم والخالة ولد الجد، وكذا بنت الأخت لأب أولى من الخالة على الرواية الأخيرة؛ لأنها من ولد الأب، والخالة ولد الجد فكانت أولى."

(کتاب الحضانة، فصل في بيان من له الحضانة، ج:4، ص:41، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و نفقة الإناث واجبة مطلقًا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة.

ولايجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزًا عن الكسب لزمانة، أو مرض و من يقدر على العمل لكن لايحسن العمل فهو بمنزلة العاجز، كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ١ / ٥٦٢، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511101850

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں